
دنیا کے 195 ممالک میں سے 116 میں خون ے۔کی سپلائی طلب سے بہت کم ہے اور کئی ممالک میں تو اس کا بحران ہے۔ جنوبی ایشیا، ذیلی صحارا کے تمام افریقی ممالک اور آسٹریلیا و ایشیا کو چھوڑ کر دیگر ممالک میں بھی یہ کیفیت دیکھی گئی ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق ضرورت کے باوجود خون کے 102, 359 ,632 یونٹ موجود ہی نہیں۔
ہر سال خون کے عطیات لاکھوں جانیں بچاتے ہیں اور اسی بنا پر انہیں طب کا اہم ستون قراردیا گیا ہے۔ پوری دنیا میں 10 کروڑ یونٹ خون عطیہ کیا جاتا ہے جبکہ 42 فیصد مقدار زائد آمدنی والے ممالک میں جمع ہوتی ہے لیکن افریقا کے 38 ممالک عالمی ادارہ صحت کی حدوں سے بھی دور ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق1000 افراد میں سے کم سے کم 10 افراد کو خون دینا چاہیے جبکہ انہی ممالک میں خون کے امراض معلوم کرنے کی ٹیسٹ کِٹ کی شدید قلت ہے۔
اب تک خون کے امراض اور بیماریوں کے خطرات پر ہی سروے کیے گئے تھے لیکن خون کی ڈیمانڈ اور سپلائی اور عالمی تناظر میں کیا گیا یہ پہلا کام ہے۔ ہمارا کام بتاتا ہے کہ خون کی قلت کہاں ہے، متبادل راستے کونسے ہیں اور کہاں عطیات بڑھانے ہیں۔
صحت کے عالمی ماہرین کو منصوبہ بندی اور بہتر پالیسی سازی میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ اس شماریاتی ماڈل میں ہر ملک کی آبادی میں 20 ایسے امراض و کیفیات کو نوٹ کیا گیا ہے جس میں خون کی ضرورت پڑتی ہے۔ پھر دیکھا گیا کہ آیا ملک کی کتنی فیصد آبادی ان کیفیات اور بیماریوں سے گزرتی ہے۔ اسی بنا پر شماریاتی ماڈل تیار کیے گئے۔
پوری دنیا میں خون کے عطیات اور ضروریات میں فرق بڑھتا جارہا ہے۔ صرف 2017ء میں ہی خون کے 27 کروڑ 20 لاکھ یونٹس عطیہ کیے گئے جبکہ طلب 30 کروڑ 30 لاکھ یونٹ تھی۔ اب خیال ہے کہ اس سال خون کے 10 کروڑ یونٹ کم ہیں۔
امیر ممالک میں کینسر کی وجہ سے خون درکار ہے تو پاکستان جیسے ملک میں تھیلیسیما اور ہیموفیلیا خون کے عطیات کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان میں جنوبی سوڈان سرِ فہرست ہے جہاں ایک لاکھ افراد میں سے صرف 46 ہی خون کا عطیہ دیتے ہیں اور دوسرا ملک بھارت ہے جہاں خون دینے کا رجحان بہت کم ہے۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/32SIjYx
0 comments: