
وفاقی حکومت نے شہرِ قائد میں ٹرانسپورٹ مسائل کے حل کیلئے 1961 میں کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز کیا تاہم ٹرانسپورٹ مافیا آڑے آگیا اور ریلوے کے بدعنوان عملے اور بیوروکریسی کی ملی بھگت سے منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے ہر جتن آزمائے گئے۔
گاڑیوں کے مقررہ اوقات میں خلل ڈالنے سے لے کر انجنوں کے پرزے اور ڈبوں میں نصب آلات کی چوری، پٹریوں کو نقصان پہنچانے، علاقائی ریلوے اسٹیشنوں میں توڑ پھوڑ تک کی گئی، اس طرح یہ سہولت محکمے کی لاپروائی اور ٹرانسپورٹ مافیا کی سازشوں کی بدولت 1999 میں مکمل طور پر بند کردی گئی۔
دس سال بعد ٹریفک کے بڑھتے ہوئے مسائل کے سبب ایک بار پھر حکومت نے جاپانی حکومت سے تعاون طلب کرتے ہوئے کراچی سرکلر ریلوے کو ازسرِنو بحال کرنے کی منظوری دی، جاپانی حکومت سے مذاکرات کے بعد باقاعدہ منصوبہ تشکیل دیا گیا, جبکہ سرکلر ریلوے بحالی پر اخراجات کا تخمینہ 1.53 ارب امریکی ڈالر تھا جو بعد میں بڑھ کر ڈھائی ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
منصوبے کے لیے جاپان کے بینک آف انٹرنیشنل کوآپریشن کی جانب سے آسان قرض کی صورت میں سرمایہ فراہم کیا جانا تھا جبکہ منصوبے کی فزیبیلٹی رپورٹ پہ دونوں ممالک کے ماہرین کام مکمل کر چکے تھے، قرضہ چالیس سال کی مدت میں واپس کرنا تھا اور منصوبے پر کام 2010 میں شروع کرکے 2014 تک مکمل کیا جانا تھا۔
جاپان کے سرکاری ادارے کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق اس پروجیکٹ کو دو حصوں میں مکمل کیا جانا تھا پہلے حصے میں 28.3 کلومیٹر کی ریلوے لائن کراچی کینٹ سے گلستانِ جوہر تک بچھائی جانی تھی جبکہ دوسرے حصے میں 14.8 کلومیٹر کی ریلوے لائن گلستانِ جوہر سے لیاقت آباد تک جبکہ 5.9 کلومیٹر لائن ڈرگ روڈ سے جناح ایئر پورٹ تک بچھائی جانی تھی یہ لائن زمین کے اندر یا پھر برج کی شکل میں زمین کے اوپر ڈالی جانی تھی،سرکلر ریلوے کے لئے منصوبے میں شہر میں 19انڈر پاس، تین اوور ہیڈ برج اور مکمل کمپیوٹرائزڈ ٹکٹنگ نظام کے حامل 23اسٹیشن کی تعمیر بھی شامل تھی۔
قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے کراچی سرکلر ریلوے پروجیکٹ کی منظوری تو دے دی لیکن زمینی حقائق اس منصوبے پر عملدرآمد سے متصادم تھے، منصوبے کی تکمیل میں مجرمانہ تاخیر کے بعد سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں سرکلر ریلوے کی زمین کو نوے فیصد خالی کرا لیا گیا، کراچی سرکلر ریلوے کی کل لمبائی 50 کلومیٹر رکھی گئی۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2vci6YJ
0 comments: