Wednesday, December 26, 2018

وہاڑا دوسری صدی عیسوی کا دو میناروں والا منفرد اسٹوپا

وہاڑا دوسری صدی عیسوی کا دو میناروں والا منفرد اسٹوپا
سوات میں دوسری صدی عیسوی کے کُشان دور میں تعمیر کيا جانے والا ’وہاڑا’ دو میناروں والا اسٹوپا آج بھی اپنی اصل حالت میں کھڑا ہے۔ جنوبی ایشیا میں یہ واحد ایسا اسٹوپا ہے، جس کے دو مینار ہيں۔

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے تينتاليس کلومیٹر کے فاصلے پر تحصیل بریکوٹ کے گاؤں بلو کلے میں دوسری صدی عیسوی میں تعمیر کی جانے والی خانقاہ موجود ہے، جس میں دو میناروں والا ايک ’اسٹوپا‘ ہے۔ اسے ’وہاڑا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور يہ آج بھی اپنی اصل حالت میں بدھ مت کے دور کی عکاسی کرتا ہے۔ وہاڑا سنسکرت زبان یا قدیم بدھ مت زبان میں اُس کمرے کو کہتے ہیں، جس میں بدھ مت کے راہب قیام کرتے ہيں۔

ماہر آثار قدیمہ فضل خالق خان کے مطابق سوات کی اس خانقاہ اور اسٹوپا کو سن 1926میں سر اورل اسٹائن نے دریافت کیا تھا جبکہ سن 1938 میں سر برگر اور ورائٹ نے یہاں پر مزید کھدائی کا کام کیا۔ انہوں نے مزيد بتايا، ’’دوسری صدی عیسوی بدھ مت کا سوات میں ایک سنہرا دور تھا۔ یہاں پر تقریباً چودہ سو کے قریب اسٹوپے اور خانقاہیں قائم کی گئی تھیں۔‘‘ فضل خان خالق نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ بلو کلے میں قائم ’وہاڑا‘ تاریخی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیاء کی واحد عمارت ہے، جو سوات میں موجود ہیں اور جس میں دو مینار ہیں۔ ’’اسٹوپا گندھارا فن تعمیر کی عکاسی کرتا ہے، جو پتھروں سے بنایا گیا ہے۔ اس کے گرد ایک تنگ گلی بنائی گئی ہے جو ہوا اور روشنی کے ليے ہے۔ يہی وجہ ہے کہ شدید گرمی میں بھی یہ کمرہ ہوا دار اور روشن رہتا ہے۔‘‘

بدھ مت دور کی اس خانقاہ میں راہبوں کے قیام کے ساتھ ساتھ یہاں پر طلباء کو تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ دنیا بھر سے وہاں طلبہ علم حاصل کرنے کے ليے آیا کرتے تھے۔ اطالوی آرکیالوجیکل مشن، جو سوات میں سن 1956سے کام کر رہا ہے، نے بعد میں وہاں مزید کھدائی کا کام کیا۔ اس مشن نے خانقاہ اور دومیناروں والے اسٹوپا کو محفوظ کرنے کے ليے بھی کام کيا۔ مشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر لکا ماریا الویری نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتايا کہ اس اسٹوپا کی تعمیر دیگر عمارات یا اسٹوپوں سے مختلف ہے کیونکہ اس میں دو مینار ہیں۔ ’’اس دور میں دو مینار والی عمارت یا اسٹوپا بنانا خاصا مشکل کام ہوا کرتا تھا جبکہ اس پر لاگت بھی بہت آتی تھی۔ اس کی فن تعمیر باقی تمام دریافت ہونے والے آثار سے مختلف ہے۔‘‘

سوات میں موجود دوسری صدی کی اس خانقاہ اور اسٹوپا کو دیکھنے کے ليے تاریخ اور آرکیالوجی کے طلبہ وطالبات ریسرچ کے ليے وہاں پر جاتے ہیں جب کہ بدھ مت کے پیروکار بھی عبادت کے ليے اس مقام کا رُخ کیا کرتے ہیں۔ ماہرِ آثار قدیمہ کے مطابق اگر محکمۂ آثارِ قدیمہ اور حکومت تو جہ دے اور آمد ورفت کو آسان بنایا جائے، تو نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاح بھی اس مقام کی طرف جايا کريں گے۔

 



from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں http://bit.ly/2Af3APW

0 comments:

Popular Posts Khyber Times