Monday, May 8, 2023

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل، حکومت کا ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ

 سپریم کورٹ
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت جاری ہے، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی لارجر بینچ سماعت کررہا ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل سے متعلق کیس میں وفاقی حکومت نے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کردیا گیا۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ کیا حکومت فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟۔ جسٹس مظاہر نے پوچھا کہ آرٹیکل 91 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہوسکتی ہے؟۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے درخواست دائر کی ہے، مسلم لیگ (ن) نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالت کو درخواست دے دی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کی درخواست پر تو ابھی نمبر بھی نہیں لگا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے دستاویزات جمع کروا دی ہیں، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ توقع ہے کل تک پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ مل جائے گا، اسپیکر آفس سے باضابطہ اور غیر رسمی طور پر بھی رابطہ کیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالت قرار دے چکی ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے، عدلیہ آزادی آئین کا بنیادی جزو ہے، قانون میں بینچوں کی تشکیل اور اپیلوں کا معاملہ طے کیا گیا ہے، عدالتی اصلاحات بل میں وکیل کی تبدیلی کا بھی حق دیا گیا ہے، قانون میں جو معاملات طے کیے گئے وہ انتظامی نوعیت کے ہیں، سپریم کورٹ کے رولز فل کورٹ نے تشکیل دیے تھے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم بھی فل کورٹ ہی کرسکتی ہے، عدلیہ کی آزادی اور رولز سے فیصلہ و مقدمہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے، قانون براہ راست ان ججز پر بھی لاگو ہو گا جو مقدمہ نہیں سن رہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ سوال قانون سازی کے اختیارات کا ہے رولز میں ترمیم کا نہیں، قانون سازی کے اختیار کے مقدمات مختلف بینچز معمول میں سنتے رہتے ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا ماضی میں ایسی قانون سازی ہوئی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 1992 تک رولز بنانے کے لیے صدر کی اجازت درکار تھی۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 91 کے ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کیسے ہو سکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر کی اجازت کا اختیار واپس لے لیا گیا تھا، رولز آئین و قانون کے مطابق بنانے کی شق برقرار رکھی گئی، ماضی میں کبھی ایسا مقدمہ نہیں آیا اس لیے فل کورٹ تشکیل دی جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ کئی مقدمات اپنی نوعیت کے پہلے ہوتے ہیں، سپریم کورٹ کا کوئی بھی بینچ کوئی بھی مقدمہ سن سکتا ہے، کیا حکومت فل کورٹ کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے؟ رولز اور آئین اور قانون کے تحت کیا حکومت چاہتی ہے عدالت کی اندرونی بحث باہر آئے؟

انہوں نے استفسار کیا کہ ہر مقدمہ اہم ہوتا ہے، یہ تعین کیسے ہوگا کہ کون سا کیس فل کورٹ سنے؟ کیا عدلیہ کی آزادی کا ہر مقدمہ فل کورٹ نے سنا تھا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ افتخار چوہدری کیس سمیت کئی مقدمات فل کورٹ نے سنے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر یہ آپ کا مقدمہ نہیں لگتا کہ فل کورٹ بنائی جائے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کیا اپ کہنا چاہ رہے ہیں عوام کا اعتماد فل کورٹ پر ہے، عدالت درخواست گزار کی خواہش پر اپنی کارروائی کیسے ریگولیٹ کرے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہا کہ عدلیہ کی ازادی کے تمام مقدمات فل کورٹ نے نہیں سنے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ افتخار چوہدری کیس مختلف نوعیت کا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ رولز بنانے کا اختیار فل کورٹ کو انتظامی امور میں ہے، اگر تین رکنی بینچ کے سامنے رولز کی تشریح کا مقدمہ آجائے تو کیا وہ بھی فل کورٹ کو سننا چاہیے، فل کورٹ اپنے رولز بنا چکی ہے۔ جسٹس منیب اختر

اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ کیس میں قانونی سازی کا اختیار چیلنج ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ کی منطق سمجھ سے باہر ہے، فل کورٹ کا فیصلہ اچھا اور تین رکنی بینچ کا برا ہو گا۔

جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی یہ دلیل ہے کہ رولز فل کورٹ نے بنائے تو تشریح بھی وہی کرے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کا جواب خود پارلیمنٹ نے اپنے بنائے گئے قانون میں دے دیا ہے، عدالتی اصلاحات بل کے مطابق پانچ رکنی بینچ آئیںن کی تشریح کا مقدمہ سنے گا، یا تو آپ کہے کہ پارلیمنٹ نے قانون غلط بنایاہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے قانون پر عمل درآمد سے روک رکھا ہے، اس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر حکم امتناع نہ ہوتا تو فل کورٹ کی استدعا کہا جاتی، پارلیمنت کہتی ہے 5 رکنی بینچ ہو اٹارنی جنرل کہتے ہے فل کورٹ ہو، لگتا ہے حکومت کی گنتی کمزور پڑھ گئی ہے کہ یہاں کتنے ججز بیٹھے ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ فل کورٹ کی استدعا مناسب لگنے پر کی جاسکتی ہے، قانون میں کم سے کم پانچ ججز کا لکھا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ پارلیمنت 5 ججز سے مطمئن ہے تو اٹارنی جنرل کیوں نہیں؟

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ قوانین کے خلاف درخواستیں عدالت معمول میں سنتی ہے، ہائی کورٹ بھی قوانین کے خلاف درخواستیں سنتی ہیں، کیا ہائی کورٹ میں بھی فل کورٹ کی استدعا کی گئی ہے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ نہیں ہے، 2012 میں بھی اس نوعیت کا مقدمہ سنا جاچکا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں 60 اور سندھ ہائی کورٹ میں 40 ججز سماعت کریں گیے؟

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کی درخواست میں لکھا ہے کہ بینچ حکم امتناع میں اپنا ذہن دے چکا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا عدالت اصلاحات بل ہائی کورٹ میں چیلنج نہیں، اس پر بات نہیں کروں گا، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو ہائی کورٹس فل کورٹ بنانے کی پابند ہوں گی۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر صوبائی اسمبلی بھی اس نوعیت کا قانون بنادے تو کیا پوری ہائی کورٹ مقدمہ سنے گی؟

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا تمام 8 ججز فیصلہ کریں گے کہ فل کورٹ بنے گی؟

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ کیا بینچ چیف جسٹس کو فل کورٹ بنانے کا حکم دے سکتا ہے؟

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست قابل سماعت ہونے پر بھی سوال ہے، ایسی درخواست انتظامی سطح پر دی جاسکتی ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی گزارش کرسکتے ہیں، جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے کہ درخواست میں آپ چیف جسٹس کو حکم دینے کی استدعا کررہے ہیں، کیا عدالت چیف جسٹس کو حکم دے سکتی ہے؟

جسٹس مظاہر علی نقوی نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ کی تشکیل کی درخواست میں کی گئی استدعا پر تحفظات ہیں۔

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ ایسی استدعا پر عدالت کس قسم کا حکم دے سکتی ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ماضی میں ایسی درخواست پر فل کورٹ تشکیل دی جاتی رہی ہے۔

خیال رہے کہ عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزر جانے پر از خود منظور ہوکر 21 اپریل کو قانون کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

رواں ماہ 2 مئی کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے مذکورہ بل پر سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے اور جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے علیحدہ کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا تھا۔

4 مئی کو سپریم کورٹ نے بل پر سماعت کا 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کردیا تھا جس میں بینچ کی تشکیل پر کیے گئے اعتراض کا ذکر شامل نہیں تھا۔

مذکورہ قانون کے خلاف دائر تینوں درخواستوں میں استدلال کیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 کا تصور، تیاری، توثیق اور اسے پاس کرنا بددیانتی پر مبنی عمل ہے لہٰذا وہ سپریم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اسے قانونی اختیار کے بغیر قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیں۔

کیس میں وفاقی حکومت، سیکریٹری قانون کے ساتھ ساتھ وزیراعظم اور صدر کے پرنسپل سیکریٹریز کو نامزد کیا گیا ہے۔

درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ جب تک درخواست زیر التوا ہے، اس وقت تک بل کو معطل کیا جائے اور صدر ڈاکٹر عارف علوی کو بل منظور نہ کرنے کی ہدایت دی جائے تاکہ یہ پارلیمنٹ کا ایکٹ نہ بن سکے، ان کا موقف تھا کہ وفاقی حکومت ایسا کوئی قانون نہیں بنا سکتی جو آئین کے تحت سپریم کورٹ کے کام یا اس کے یا اس کے ججوں بشمول چیف جسٹس کے اختیارات میں مداخلت یا ریگولیٹ کرنے کی کوشش کرے۔

درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ آئینی مینڈیٹ کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر آئینی اقدام انتہائی متنازع ہے اور وفاقی حکومت نے آئین پاکستان کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی۔

درخواستوں میں کہا گیا کہ یہ بات ناقابل تصور ہے کہ سوموٹو سمیت آئینی اختیارات کے حوالے سے چیف جسٹس کے دفتر کو پارلیمنٹ کے ذریعے ریگولیٹ کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

درخواست گزاروں کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ ایسا قانون نہیں بنا سکتی جو آئین کی شقوں سے متصادم ہو اور استدلال کیا گیا کہ اگر کسی بھی اپیل کی قانون سازی کے ذریعے اجازت دی جاسکتی ہے تو یہ صرف آئین میں ترمیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔



from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/XBFMsga

0 comments:

Popular Posts Khyber Times