
حال ہی میں ایک پاکستانی آٹو کمپنی نے ایک ’ماحول دوست‘ الیکٹرک رکشے کی رونمائی کی ہے۔ پٹرول یا گیس کے بجائے بجلی سے چلنے والا یہ رکشہ تاحال مارکیٹ میں متعارف تو نہیں کروایا گیا مگر خیال ہے کہ اس کی قیمت کسی عام رکشے سے زیادہ ہو گی، تاہم کمپنی کے مطابق اس کی سواری سستی پڑے گی۔
الیکٹرک رکشے کے بارے میں کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان میں تیار کیا گیا ہے لیکن اس کے کچھ حصے درآمد شدہ ہیں۔
کمپنی سے وابستہ ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’پورا رکشہ پاکستان میں بنا ہے اور پاکستان میں ڈیزائن ہوا ہے۔‘
’سوائے بیٹری، موٹر اور کنٹرولر کے (جو درآمد شدہ ہیں)۔ وہ بھی پاکستان میں بن سکتے ہیں۔ جیسے ہی پاکستان میں الیکٹرک وہیکل پالیسی آتی ہے، اس کی صنعت پاکستان میں لگ جائے گی تو یہ رکشہ 100 فیصد پاکستانی ہو جائے گا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ الیکٹرک رکشہ میں، جو فی الحال ایک نمونے کے طور پر تیار کیا گیا ہے، انجن کی جگہ بیٹری نصب کی گئی ہے۔ ’اس کی موٹر بیٹری سے چلتی ہے اور انجن کی کارکردگی کو کنٹرولر سنبھالتا ہے۔‘
بجلی سے چلنے والے اس رکشے میں 48 وولٹ بیٹری، تین کلو واٹ کی موٹر اور کنٹرولر موجود ہیں۔ یہ اس کے انجن کی جگہ یعنی رکشہ ڈرائیور کی سیٹ کے نیچے موجود ہیں۔
اس کی پچھلی سیٹ کے نیچے پڑی تار کی مدد سے اسے چارج کیا جا سکتا ہے۔ کمپنی کے مطابق یہ کسی بھی گھر، دفتر یا خاص چارجنگ پوائنٹ پر چارج ہو سکے گا۔
ان کا دعویٰ ہے کہ اس الیکٹرک رکشے کو پانچ گھنٹوں میں چارج کر کے 170 کلومیٹر تک چلایا جا سکتا ہے۔
جبکہ سواریوں کے ساتھ اس کی حد رفتار 80 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے، اس وقت پاکستان میں زیادہ تر رکشے پٹرول، ایل پی جی یا سی این جی پر چلتے ہیں۔
پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں بتدریج اضافے کی وجہ سے ان کے کرایے بھی بڑھ چکے ہیں جن سے عوام اکثر پریشان دکھائی دیتی ہے۔
علی کہتے ہیں کہ برقی رکشے میں بیٹھنے والوں کو اس لیے بچت ہو گی کیونکہ ’جب رکشہ ڈرائیور کا خرچہ کم ہو گا تو رکشے کی سواری کا کرایہ خود ہی کم ہو جائے گا۔‘
’ایک لیٹر پٹرول میں جتنا رکشہ چلتا ہے، اتنا ہی ایک یونٹ بجلی میں چل سکتا ہے۔ بجلی کا ایک یونٹ 20 سے 21 روپے کا ہے۔ ایک لیٹر پٹرول 117 روپے کا ہے۔ تو یہ آپ کی براہ راست بچت ہے۔‘
کمپنی کا دعویٰ ہے کہ برقی رکشے سے ڈرائیور سالانہ ڈھائی لاکھ روپے پٹرول اور گیس یعنی فیول کی مد میں بچا سکیں گے سالانہ 30 ہزار روپے اس کی دیکھ بھال (یعنی ٹیوننگ اور موبل آئل) کے خرچے میں بچائے جا سکیں گے۔
اس میں ’موونگ پارٹس کم ہیں اس لیے اس کا خرچہ کم ہوگا۔۔۔ آئل تبدیل نہیں کرنا پڑتا، رنگ، پسٹن نہیں ڈالنے پڑتے، اس میں کلچ پلیٹیں نہیں ہوتیں جو انجن میں گھس جاتی ہیں۔‘
یہ الیکٹرک رکشہ تاحال بازار میں لوگوں کے خریدنے کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی قیمت کا تعین نہیں کیا جا سکا مگر خیال ہے کہ عام آٹو رکشے کے مقابلے اس کی قیمت کافی زیادہ ہو گی۔
اس بارے میں کمپی نے کوئی واضح تاریخ نہیں دی کہ یہ رکشہ مارکیٹ میں کب متعارف کرایا جائے گا اور وہ حکومتی الیکٹرک وہیکل پالیسی کے نفاذ اور ڈیوٹی میں رعایت کے منتظر ہیں جس کے بعد ہی وہ بڑے پیمانے پر الیکٹرک رکشے کی مقامی سطح پر اسمبلی کا باقاعدہ آغاز کر سکیں گے۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2ufkBK2
0 comments: