
شمالی نصف کرہ اس وقت سردی کی لپیٹ میں ہے اور ٹھنڈک کے ساتھ دن کی روشنی کم ہوتی جارہی ہے مگر روس کے شہر نورلسک جیسا موسم عموماً دیگر شہروں میں نظر نہیں آتا، جہاں کے رہائشی جنوری کے وسط تک سورج کی روشنی بھی نہیں دیکھ پاتے اور اسے دنیا کا سرد ترین شہر بھی کہا جاتا ہے۔
یہ ان 2 سائبرین شہروں میں سے ایک ہے جو پورا سال منجمد رہتے ہیں اور سردیوں میں یہاں کے ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد رہائشیوں کو اوسطاً منفی 61 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کا سامنا ہوتا ہے۔مجموعی طور پر پورے سال کا درجہ حرارت منفی 10 سینٹی گریڈ رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے سرد ترین شہر بھی کہا جاتا ہے کیونکہ سائبریا کے ایک اور شہر یاکوتسک کا اوسط درجہ حرارت اس سے زیادہ ہے۔پھر برف ہے اور یہ شہر پورا سال 270 دن برف سے ڈھکا رہتا ہے اور ہر 3 میں سے ایک دن یہاں کے رہائشیوں کو برف کے طوفان کا سامنا ہوتا ہے۔یہ شہر ماسکو سے 1800 میل دور واقع ہے اور یہاں پر پہنچنا طیارہ یا کشتی کے ذریعے ہی ممکن ہے اور یہ باقی دنیا سے اتنا الگ ہے کہ یہاں کے رہائشی اکثر روس کو مین لینڈ پکارتے ہیں۔ اس شہر میں پلاٹینیم، نکل اور پالاڈئم کے ذخائر ہیں اور اسے روس کا امیر ترین شہر بھی قرار دیا جاتا ہے۔
دنیا کے سردترین شہر کے ساتھ ساتھ ان کانوں کی مہربانی سے یہ آلودہ ترین شہروں میں سے بھی ایک ہے، یہاں سبزیاں تو اس کی وجہ سے اگ نہیں پاتیں جبکہ رہائشیوں کو بیریز یا مشروم وغیرہ کھانے سے روکا جاتا ہے جس کی وجہ ان میں زہریلے مواد کی موجودگی ہے۔کان کنی کے نتیجے میں کچھ عرصے قبل یہاں قریب بہنے والے دریا کا پانی بھی سرخ ہوگیا تھا۔ویسے یہاں کے رہنے والے سرد موسم اور آلودگی سے ہٹ کر اسے خوبصورت قرار دیتے ہیں جہاں سے کہیں اور منتقل ہونا انہیں پسند نہیں۔یہاں گھروں پر پائپ نہیں لگائے جاتے کیونکہ پانی جمنے سے ان کے پھٹنے کا ڈر ہوتا ہے، گاڑیاں ہمیشہ چلتی رہتی ہیں تاکہ پٹرول جم نہ جائے۔یہ ہے روس کی ریاست سائبریا میں واقع اویمیاکون، جہاں 2018 کے آغاز میں درجہ حرارت سے آگاہ کرنے والا الیکٹرونک تھرمامیٹر منفی 62 ڈگری سینٹی گریڈ پر پھٹ گیا تھا۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/36HMpUC
0 comments: