مگر کم کاربوہائیڈریٹس والی یہ غذا موٹاپے سے نجات میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے؟
تو اس کا جواب جاپان میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دیا گیا ہے، جس میں بتایا گیا کہ ایشیائی یا جاپانی انداز کے کھانوں (جن میں چاولوں کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے)کو ترجیح دینے والے ممالک میں موٹاپے کی شرح کم ہوتی ہے۔
اس تحقیق کے دوران 136 سے زائد ممالک اور چاول کھانے سمیت کیلوریز کے استعمال کی شرح کا تجزیہ کیا گیا جبکہ جسمانی وزن کے ڈیٹا کو بھی دیکھا گیا۔
کیوٹو کی ڈوشیھا ویمنز کالج آف لبرل آرٹس کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ چاول زیادہ کھانے کی عادت رکھنے والے ممالک میں موٹاپے کی شرح مغربی ممالک سے کم ہے جہاں چاول کھانے کی شرح کم ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ چاول میں چربی کی مقدار کم ہونا جبکہ فائبر، نباتاتی کمپاﺅنڈز اور دیگر اجزا کی موجودگی ہے جو پیٹ کو زیادہ دیر تک بھرے رکھنے میں مدد دیتے ہیں اور بسیار خوری سے بچنا ممکن ہوجاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دنیا بھر میں موٹاپے کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس سے بچنے کے لیے چاول کھانا موثر عادت ثابت ہوسکتی ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اعتدال میں رہ کر چاول کھانا ہی فائدہ مند ہے اس کو بہت زیادہ کھانا ذیابیطس اور میٹابولک سینڈروم کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
اس سے قبل امریکا کی آرسیرو یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ نشاستہ کی مزاحمت کرنے والے کاربوہائیڈریٹس کا استعمال موٹاپے کے کنٹرول میں رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
یہ کاربوہائیڈریٹس بیج، اجناس، سفید چاول اور پاستا وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق یہ کاربوہائیڈریٹس دیر سے ہضم ہوتے ہیں اور معدے میں فیٹی ایسڈز میں تبدیل ہوجاتے ہیں، جنھیں ہمارا جسم توانائی کے طور پر جلاتا ہے۔
یہ کاربوہائیڈریٹس سفید ڈبل روٹی یا میٹھی اشیا میں پائے جانے والے کاربوہائیڈریٹس سے مختلف ہوتے ہیں جو فوری طور پر جسم میں جذب ہوکر جلنے کی بجائے چربی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور موٹاپے کا باعث بنتے ہیں۔
اس تحقیق میں پہلی بار یہ بات سامنے آئی ہے کہ سفید چاول اور پاستا میں موٹاپے سے تحفظ دینے والے کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں اور سادہ چاول کا اکثر استعمال موٹاپے سے تحفظ میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ جب نشاستہ کی مزاحمت کرنے والی غذا کا استعمال کیا جاتا ہے تو پیٹ جلد بھر جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ زیادہ کھانے سے قاصر رہتے ہیں۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں http://bit.ly/2VPOzzV
0 comments: