
کئی دہائیوں سے امریکی قونصل خانہ فلسطینیوں کے لیے حقیقتاً سفارتخانے کے طور پر کام کر رہا تھا تاہم اب یہ کام امریکی سفارتخانے کے لیے زیر انتظام فلسطینی امور کے یونٹ کو دے دیا گیا ہے۔
امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق اس اقدام سے مغربی کنارے میں آباد کاری کے پرانے حامی اور فلسطینی قیادت کے ناقد امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین کو غزہ اور مغربی کنارے میں امریکا کے سفارتی رابطہ کاروں پر فوقیت مل جائے گی۔
یہ اعلان امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے پیر کو کیا گیا جس کا اطلاق فوری طور پر ہو گا۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان روبرٹ پلاڈینو نے اپنے بیان میں کہا کہ اس فیصلے کا مقصد ہمارے سفارتی رابطوں اور آپریشنز کو موثر بنانے کی کوششوں کو بہتر بنانا ہے، اس کامقصد یہ نہیں کہ امریکا کی یروشلم، مغربی کنارے یا غزہ کی پٹی کے حوالے سے پالیسی تبدیل ہو گئی ہے۔
جب امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے گزشتہ سال اکتوبر میں پہلی مرتبہ اس اقدام کا اعلان کیا تھا تو فلسطینی عوام نے اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ امریکا مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر اسرائیل کے کنٹرول کو تسلیم کرنے جا رہا ہے جہاں دوسری فلسطین مذکورہ علاقوں میں اپنی علیحدہ ریاست بنانے کا عزم رکھتا ہے۔
فلسطینی آفیشل سائب ایراکیت نے امن عمل کے لیے امریکی کردار کے سلسلے میں اس اقدام کو ’تابوت میں آخری کیل‘ قرار دیا۔
امریکا کی جانب سے سفارتی مشن کا درجہ کم کرنا ٹرمپ انتظامیہ تقسیم کے فیصلوں کی کڑی ہے جہاں اس نے اسرائیل کی حمایت کی اور فلسطین سے علیحدہ رویہ روا رکھا جس پر فلسطینی حکام کا کہنا تھا کہ وہ امن عمل کے دوران امریکا کے ثالث کے کردار کی حیثیت سے ان کا اس پر اعتبار ختم ہو چکا ہے۔
گزشتہ سال امریکا نے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے اپنا سفارتخانہ وہاں منتقل کردیا تھا جس کے ساتھ ہی اسرائیل فلسطنی تنازع میں امریکی پالیسی نے ایک مرتبہ متنازع موڑ لیا تھااور اس اقدام کے بعد فلسطین نے امریکی انتظامیہ سے اپنے تعلقات ختم کر لیے تھے۔
اس کے جواب میں انتظامیہ نے فلسطینیوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی جانے والی سیکڑوں ملین ڈالر کی امداد بند کرتے ہوئے ہسپتالوں و دیگر اہم کاموں کے لئے بھی امداد بند کردی تھی۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2NFp1yY
0 comments: