
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے نجی ادویہ ساز کمپنی کی جانب سے قیمتوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی کابینہ نے ادویات کی قیمتوں سے متعلق کوئی فیصلہ کیا؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ معاملہ کابینہ نہیں ٹاسک فورس کو بھیجا گیا تھا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لگتا ہے ٹاسک فورس فیصلہ کرنے کے بجائے معاملے پر بیٹھ ہی گئی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آخر کر کیا رہی ہے ؟؟ حکومت کو معلوم ہی نہیں کہ کرنا کیا ہے، حکومت صرف کاغذی کارروائی کرتی ہے فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں، حکومت خود کچھ کرتی نہیں فیصلےکےلیے معاملہ ہمارے گلے ڈال دیا جاتا ہے۔
جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ادویات کمپنیاں ہوں یا خریدار سب ہی غیر یقینی صورتحال میں رہتے ہیں، ادویہ ساز کمپنیاں خام مال خریداری کے نام پر سارا منافع باہر بھیج دیتی ہیں، افسوس ہوتا ہے کہ حکومت کوئی کام نہیں کر رہی ، ڈریپ کہتی ہے مٹھی گرم کروتو سارا کام ہوجائے گا جبکہ حکومت خود فیصلہ کرتی نہیں اور ہائی کورٹ کے فیصلے چیلنج کرتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ڈریپ بروقت فیصلہ نہ کرے تو مقررہ مدت کے بعد ازخود قیمت بڑھ جاتی ہے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نجی کمپنی نے باسکوپان نامی دوائی مارکیٹ سے غائب کر رکھی ہے، دوائی کی قیمت پوری نہ ملے تو مارکیٹ سے غائب کر دی جاتی ہے، نجی کمپنی نے 8 دوائیوں کی قیمت بڑھائی، ڈریپ نے ایکشن لیا تو سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناع لے لیا، بعد ازاں عدالت نے سماعت 29 جون تک ملتوی کردی۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2VjCP7t
0 comments: