
اب تک ہمارا یہی خیال تھا کہ چاند ایک پتھریلی جگہ ہے جس کی سطح پر تھوڑی بہت ریت بھی بکھری ہو ئی ہے، لیکن گزشتہ برس چاند پر اُترنے والی گاڑی (روور) ’’یوٹو 2‘‘ کی تازہ دریافت سے اندازہ ہوتا ہے کہ چاند پر ہمارے سابقہ اندازوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ریت موجود ہوسکتی ہے۔
خلائی گاڑی ’’یوٹو 2‘‘ چاند پر بھیجے گئے چینی مشن ’’چانگ ای 4‘‘ کا حصہ ہے جبکہ یہ چاند کے تاریک حصے پر کامیابی سے اترنے والی اوّلین متحرک انسانی مشین بھی ہے۔ ’’چاند کے تاریک حصے‘‘ سے مراد چاند کا وہ حصہ ہے جو ہمیشہ زمین سے مخالف سمت پر رہتا ہے اور ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔
اس ریڈار کے ذریعے چینی ماہرین پچھلے ایک سال سے چاند کا وہ اندرونی حصہ کھنگال رہے ہیں جو سطح کے قریب یعنی قدرے کم گہرائی پر ہے۔ اسی تحقیق سے معلوم ہوا کہ چاند کی سطح پر ریت کی تہہ ہمارے اندازوں کے مقابلے میں خاصی زیادہ ہے۔
چاند پر موجود ریت، زمینی ساحلوں پر اور ریگستانوں میں پائی جانے والی ریت سے بھی زیادہ باریک اور کسی باریک سفوف کی مانند ہے۔
ماہرین اس نکتے پر متفق ہیں کہ یہ ریت آج سے اربوں سال پہلے ہونے والے شہابی تصادموں کی باقیات میں سے ہے، جنہوں نے چاند کی بڑی بڑی چٹانوں کو ریزہ ریزہ کرکے باریک سفوف جیسی شکل میں تبدیل کردیا تھا۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جب زمین اور چاند نئے نئے وجود میں آئے تھے تو اُس زمانے میں ان دونوں پر شہابِ ثاقب کی گویا بارش برس رہی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمین پر پانی، ہوا اور دوسرے قدرتی عوامل کے نتیجے میں شہابِ ثاقب کی کم و بیش تمام باقیات غائب ہوگئیں لیکن چاند پر ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ اسی بناء پر چاند کی سطح گزشتہ تین یا ساڑھے تین ارب سال سے تقریباً ایسی ہی چلی آرہی ہے۔
انسان کا منصوبہ ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں وہ چاند پر بھی بستیاں بسائے گا اور ان بستیوں کی درست منصوبہ بندی کرنے کےلیے ہمارا یہ جاننا ضروری ہے کہ چاند کی سطح پر مضبوط و ہموار چٹانیں کہاں کہاں واقع ہیں؛ ریت کیسی ہے، کتنے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور اس کی گہرائی کتنی ہے، وغیرہ۔
ان سب کے علاوہ، چاند کی سطح پر موجود ریت پر مزید تحقیق کرکے ہم چاند کے علاوہ زمین اور نظامِ شمسی کے اپنے ابتدائی ادوار اور ارتقاء کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے میں بھی مدد لے سکیں گے۔
اس دریافت کی تفصیل ریسرچ جرنل ’’سائنس ایڈوانسز‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2TnZCx0
0 comments: