
لاہور ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران عدالت کی برہمی پر آئی جی پنجاب عارف نواز نے صفائی پیش کی کہ پولیس قانون کے مطابق کارروائی کررہی ہے، تفتیش کو طے شدہ معیار کے مطابق کیا جارہا ہے، کسی گروہ کو پولیس نے ٹارگٹ نہیں کیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اسپتال پر حملہ بدقسمتی ہے، ملک میں کسی ایڈونچر کی گنجائش نہیں، گرفتار وکلا کے چہرے ڈھانپ کر پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جو ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔
آئی جی پنجاب نے موقف اختیار کیا کہ جو افراد موقع سے پکڑے گئے صرف ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ عدالت نے کہا جس نے کیا اسے خمیازہ بھگتنا چاہئے جس نے نہیں کیا اسے کیوں تنگ کیا گیا؟ وکلا 6میل کا فاصلہ طے کرکے گئے پولیس نے پہلےایکشن کیوں نہیں لیا؟
عارف نواز نے کہا کہ پولیس نے جگہ جگہ روکا مگر اس وقت وکلا بھی پرامن رہے۔ جس پر عدالت نے سوال کیا کہ کیا پی آئی سی کے سامنے پولیس نے جانے کی اجازت دی تھی؟ آئی جی نے جواب دیا پولیس نے ایسی کوئی اجازت نہیں دی۔
عدالت کا برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پولیس نے وکلا کو اسپتال جاکر احتجاج سے کیوں نہیں روکا؟ اسپتال تو ایسی جگہ ہے جہاں مریضوں پر عبادت بھی ساقط ہوجاتی ہے، دل کے مریضوں کے سامنے تو اونچی آواز اور سانس بھی نہیں لی جاسکتی، پولیس اپنی ناکامی تسلیم کرے۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا پولیس نے وکلا کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس چلائی۔ جس پر عدالت نے کہا وکلا نے اسپتال پر حملہ اور پولیس نے آنسو گیس چلائی تو قوم پر کیا احسان کیا؟ کیا وہاں آنسوگیس کا استعمال ہونا چاہیے تھا؟
سیکریٹری داخلہ پنجاب کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں تین افراد جان سے گئے، لواحقین کو فی کس10لاکھ روپے دئیے گئے۔ عدالت نے کہا 10لاکھ بہت کم ہیں آج کے دور میں اتنے پیسوں کا کیا بنتا ہے؟
عدالتی حکم پر پی آئی سی کے سربراہ بھی چیمبر میں پیش ہوگئے، سماعت تاحال جاری ہے۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2PXPw4k
0 comments: