Monday, July 22, 2019

حکمرانی کی جنگ

ڈریگنز
انڈونیشیا کے کوموڈو جزیرے پر حکمرانی کی جنگ حکام کوموڈو جزیرہ ڈریگنز کو واپس کرنا چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ جزیرے کو سیاحوں کے لیے بند کر دیا جائے مقامی باشندوں کو وہاں سے نکال دیا جائے۔

مقامی باشندے نسل در نسل اس جزیرے میں ان بڑی چھپکلیوں کے ساتھ رہتے آئے ہیں۔گذشتہ کئی دہائیوں سے کوموڈو ڈریگنز دنیا کے لیے باعثِ دلچسپی رہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی چھپکلیاں، جو اپنے نوکیلے دانتوں اور زہریلے ڈنگ کی وجہ سے مشہور ہیں، مشرقی انڈونیشیا کے اس چھوٹے سے خطے میں پائی جاتی ہیں۔ سیاح جوق در جوق ان کو دیکھنے آتے ہیں جبکہ کئی ڈراؤنی فلمیں ان چھپکلیوں سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہیں۔

رہائش پذیر مقامی افراد کا ماننا ہے کہ ان کا ان چھپکلیوں سے جسمانی اور روحانی تعلق ہے تاہم انسانوں کا ان چھپکلیوں سے تعلق اب شاید بدلنے جا رہا ہے۔

انڈونیشیا میں اس علاقے کے گورنر وکٹر بنگٹیلو لیسکوڈاٹ کا کہنا ہے .اس جزیرے کو کوموڈو جزیرہ کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کو صرف کوموڈو ڈریگنز کے لیے وقف ہونا چاہیے نہ کہ انسانوں کے لیے۔ یہاں اب صرف جانوروں کے حقوق ہوں گے نہ کہ انسانوں کے۔گورنر نے یونیسکو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سنہ 2020 میں وہاں موجود اپنی سائٹ ایک سال کے لیے بند کر دیں اور اس کے بعد جزیرے پر صرف چند دولت مند سیاحوں کے جانے کی جگہ بنائی جائے۔ گورنر یہ بھی چاہتے ہیں کہ جزیرے میں بسنے والے مقامی افراد ہمیشہ کے لیے وہاں سے چلے جائیں۔

گورنر کی جانب سے پیش کی گئی یہ تجویز فی الحال جکارتہ میں زیرِ غور ہے۔ڈریگنز کو دیکھنے کے لیے آنے والے سیاحوں کی تعداد بہرحال اس وقت سے کافی زیادہ ہے . سیاحوں کے ہر گروپ کو صرف پانچ منٹ دیے جاتے ہیں تاکہ وہ ندی کے قریب سستاتے کوموڈو ڈریگنز کا نظارہ کر سکیں۔ پانچ منٹ بعد انھیں آگے روانہ کر کے دوسرے گروپ کے لیے جگہ بنائی جاتی ہے۔

ٹور گائیڈ ٹیسا سیپتینی اندرا کہتی ہیں یہ جگہ ترقی کی جانب گامزن ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب یہاں لامحدود مواقع موجود ہیں۔ تاہم یہاں جو کچھ ہونے جا رہا ہے گورنر اس سے متاثر نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کوموڈو کو تحفظ نہیں دیا جا رہا۔ بہت سے لوگ یہاں آ رہے ہیں۔ وہ یہاں آنے کے لیے کچھ زیادہ قیمت ادا نہیں کر رہے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں ہر کوئی داخل ہو سکتا ہے اور ان کا اس جگہ کے حوالے سے جو نیا پلان ہے اس کے تحت زیادہ قیمت ملے گی۔لوگوں کو کوموڈو نیشنل پارک کا ممبر بننا ہو گا اور اس جگہ داخلے کے لیے انھیں سالانہ 1000 ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔ میرے خیال میں یہ بھی سستا ہے۔ اس طرح اگر ہم 50 ہزار لوگوں کو یہاں داخل ہونے کی اجازت دیں گے تو سالانہ پانچ کروڑ ڈالر کما سکتے ہیں۔

سیاحوں کا کہنہ ہے کہ یہ ناقابلِ یقین حد تک خوبصورت ہیں، مگر ڈرا دینے والے بھی۔ میں اس بات کا یقین نہیں کرتی تھی کہ ڈریگنز اپنا وجود رکھتے ہیں لیکن یہ سچ ہے.کوموڈو نیشنل پارک انڈونیشیا میں پائے جانے والے جزائر میں سب سے غریب خطے میں واقع ہے اور سیاحوں سے آنے والی آمدن اس جگہ کی تقدیر بدل سکتی ہے۔



from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2YszF48

Related Posts:

0 comments:

Popular Posts Khyber Times