
کرہ ارض پر زندگی کو سہارا دینے والا پورا نظام تیزی سے تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ان میں مونگے اور مرجانی چٹانیں، ایمیزون جیسے جنگلات اور دیگر قدرتی مقامات شامل ہیں جن کی تباہی کی شرح ماضی کی مقابلے میں 100 سے 1000 گنا زائد بڑھ چکی ہے۔
جنگلات میں ممالیوں کی مجموعی تعداد یعنی حیاتیاتی کمیت (بایوماس) 82 فیصد کم ہوچکا ہے اور قدرتی و فطری ماحول کی تیزرفتار تباہی سے دس لاکھ انواع کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں اور ان سب کی بڑی وجہ انسانی ترقی اور توسیع ہے۔
دنیا بھر میں جانوروں کی اقسام اور انواع کے ختم ہونے کی رفتار تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ انسانی سرگرمیوں، ماحولیاتی آلودگی اور آب و ہوا میں تبدیلی سے 5 سے 10 لاکھ اقسام کے جاندار ختم ہونے کا خدشہ ہے جو اگلے چند عشروں میں بھی رونما ہوسکتا ہے۔
زمین کا 75 فیصد، سمندروں کا 40 فیصد اور دریاؤں کا 50 فیصد رقبہ انسانی سرگرمیوں سے تباہ ہوچکا ہے۔ 1980 کے بعد سے انسانوں کی جانب سے کاربن (ڈائی آکسائیڈ) کا اخراج دوگنا ہوچکا ہے جس سے عالمی درجہ حرارت میں اوسطاً 0.7 درجے سینٹی گریڈ اضافہ ہوا ہے۔
اس سے قبل ہم قطبینی برف کے پگھلاؤ کی ہولناک خبریں پڑھ چکے ہیں لیکن چند ہفتوں قبل ایک سروے سے انکشاف ہوا تھا کہ دنیا بھر میں کیڑے مکوڑوں کی تعداد اور اقسام میں تیزی سے کمی ہورہی ہے اور سالانہ ڈھائی فیصد اقسام ہمیشہ کے لیے ناپید ہورہی ہیں۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں http://bit.ly/2VSsYqy
0 comments: