
خواتین دنیا کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں مگر سائنسی میدان میں ابھی بھی خواتین کی تعداد کم ہے۔ اسی لیے اقوام متحدہ نے ہر سال 11 فروری کو ’انٹرنیشنل ڈے آف ویمن اینڈ گرلز ان سائنس‘ منانے کا فیصلہ کیا تا کہ خواتین اور لڑکیاں سائنس کے میدان میں بھی ترقی کر سکیں۔
دور حاضر میں دنیا کے ہر شعبے میں خواتین اور نوجوان لڑکیاں مردوں کے شانہ بشانہ ہیں۔ فی الحال اس میدان میں ان کی تعداد مردوں کے مقابلے میں خاصی کم ہے لیکن اب اس میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اور پھر بات مشرق کی ہو یا مغرب کی، خواتین کو ان کے حقوق دلوانے اور برابری کا موضوع اکثر زیر بحث رہتا ہے۔ اس معاملے پر عوام کی بڑی تعداد اس بات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ صرف تعلیم اور طب ہی نہیں بلکہ خواتین ہر شعبے میں مردوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھیں۔ اسی حوصلہ افزائی کی وجہ سے خواتین مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھا رہی ہیں۔ پھر چاہے بات مسلح افواج کی سخت ڈیوٹی ہو یا خلائی سفر پر جانے کی، خواتین کسی طور پیچھے نہیں۔
انسٹیٹیوٹ آف اسٹیٹکس سن 2015 کی ریسرچ کے مطابق پاکستان میں 37 فیصد خواتین ریسرچرز کا تعلق میڈیکل سائنس ہے۔ 33.8 فیصد خواتین ریسرچرز نیچرل سائنسزکے لیے کام کر رہی ہے۔ 15.4 فیصد خواتین کا تعلق انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے ہے۔ 11 فیصد خواتین کا شعبہ زرعی سائنس ہے جبکہ 39.9 فیصد خواتین سماجی اور انسانی علوم سے وابستہ ہیں۔
یہ امر قابل ستائش ہے کہ پاکستان کی کل خواتین سائنسدانوں کی 25.6 فیصد تعداد نیچرل سائنس سے منسلک ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق خواتین اور بھی دلچسپی لیں تو اس شرح کو مردوں کے برابر لایا جاسکتا ہے۔ اور ان کے مطابق سن 2030 میں یہ فرق ختم ہو جائے گا۔
سائنس میں قابل قدر خدمات سر انجام دینے پر 15 خواتین کو نوبل انعامات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس تعداد میں مستقبل قریب میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا۔
دنیا بھر کی طرح پاکستانی خواتین بھی سائنسی ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔ پاکستانی خاتون سائنسدانوں کی بات کی جائے تو کئی نام قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر بینا شاہین، جنہوں نے 250 سے زائد ریسرچ آرٹیکل لکھے اور 12 پیٹنٹ ان کے نام پر موجود ہیں۔ انہیں کئی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ ڈاکٹر رابعہ حسین نے برسن ییلو ایوارڈ کے علاوہ اور کئی ایوارڈ بھی حاصل کیے اور ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں یونیورسٹی آف لندن کا فیلو بھی بنایا گیا۔
سابق وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے بھی ملک کا نام خوب روشن کیا اور کئی ایوارڈز کے علاوہ انہیں رائل کالج آف فزیشن کا فیلو بھی بنایا گیا۔ ڈاکٹرحناچوہدری نے بھی کئی ایوارڈز اپنے نام کیے، جن میں سے کلینشین سائنٹسٹ ایوارڈ سرفہرست ہے۔ صرف یہی نہیں ان کے علاوہ بھی کئی پاکستانی لڑکیاں سائنسی ترقی میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔
پاکستانی خواتین سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے متعارف کردہ ’’انٹرنیشنل ڈے آف وومن اینڈ گرلز ان سائنس‘‘پاکستان میں بھی حکومتی سطح پر منایا جائے تاکہ نوجوان خواتین روایتی تعلیم کے بجائے سائنسی علوم میں زیادہ دلچسپی لیں اور ملک و قوم کا نام روشن کریں۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں http://bit.ly/2SMelUe
0 comments: