
امریکی خبر رساں ادارے ’ اے پی ‘ کے مطابق زلمے خلیل زاد نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے دوحہ پہنچ گئے ہیں۔
زلمے خلیل زاد نے اپنے ٹوئٹ میں مذاکرات کی میزبانی پر قطر اور ان کے سفر میں سہولت فراہم کرنے کے لیے پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے ایک اور ٹوئٹ میں کہا کہ طالبان کے شریک بانی ملا عبدالغنی برادر اور ان کی ٹیم کے ساتھ کھانا کھایا،ملا برادر سے میری پہلی ملاقات ہے، اب مذاکرات کی طرف بڑھیں گے۔
امن عمل سے متعلق ملاقات کے لیے دوحہ پہنچنے والے طالبان رہنماؤں نے زلمے خلیل زاد سے ملاقات سے قبل بہتر نتائج کی امید کا اظہار کیا ہے۔
اے پی سے بات کرتے ہوئے طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ’ اس بات کے امکانات ہیں کہ ہم کسی نتیجے پر پہنچیں گے‘۔ آج ( 25 فروری کو) ہونے والے مذاکرات میں زلمے خلیل زاد کی جانب سے طالبان پر کابل میں افغان حکومت سے مذاکرات کے لیے دباؤ ڈالے جانے کا امکان ہے۔
Arrived in #Doha to meet with a more authoritative Taliban delegation. This could be a significant moment. Appreciate #Qatar for hosting & #Pakistan in facilitating travel. Now the work begins in earnest.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) February 25, 2019
خیال رہے کہ طالبان اب تک افغان حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔
افغان طالبان سے ہونے والے مذاکرات کے گزشتہ مراحل میں طالبان کے مطالبے پر امریکی فوج کے انخلا پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ تاہم اب تک امریکی افواج کے انخلا کے تعین اور جنگ بندی کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہوسکا جبکہ گزشتہ ملاقاتوں کا محور یہی دونوں مسائل تھے۔
طالبان امریکی فوج کے انخلا کے مطالبے کے ساتھ یہ ضمانت بھی دیتے ہیں کہ افغان سرزمین کو امریکا پر دہشت گرد حملوں کے لیے دوبارہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔
امریکا – افغان مذاکرات کے نئے دور میں ملا برادر طالبان وفد کی نمائندگی کررہے ہیں جنہیں گزشتہ برس پاکستان کی جیل سے رہا کیا گیا تھا۔
Just finished a working lunch with Mullah Beradar and his team. First time we’ve met. Now moving on to talks.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) February 25, 2019
دوحہ میں ملا برادر کی موجودگی اور زلمے خلیل زاد سے مذاکرات میں طالبان وفد کی نمائندگی تحریک طالبان میں ان کے عہدے کی وجہ سے اہم سمجھا جارہا ہے۔ تاہم سابق افغان صدر حامد کرزئی نے حال ہی میں اے پی کو بتایا کہ طالبان، افغان حکومت سے اس شرط پر مذاکرات کریں گے کہ حکومت افغانستان کے اہم رہنماؤں کے ایک بڑے گروہ کا حصہ ہو۔
رواں ماہ کے آغاز میں حامدکرزئی نے ماسکو میں ہونے والی ملاقات میں شرکت کی تھی جس میں افغان اپوزیشن اراکین بھی شامل تھے لیکن کابل حکومت کی جانب سے کوئی بھی شریک نہیں تھا۔
زلمے خلیل زاد امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل تعینات ہونے کے بعد سے مختلف مواقع پر طالبان سے ملاقات کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان،بھارت، روس اور چین کا دورہ کیا اور نیٹو اور یورپی یونین حکام سے ملاقاتیں بھی کیں۔
گزشتہ ہفتے انہوں نے ترکی کا دورہ کیا اور حکومتی اراکین سے بات چیت کی اس کے ساتھ ہی انہوں نے افغانستان میں تعینات روسی نمائندہ خصوصی ضمیر کابلوو سے بھی ملاقات کی تھی۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے آئندہ ماہ سیاسی اور قبائلی رہنماؤں کا روایتی جرگہ طلب کیا ہے جس میں طالبان سے مذاکرات میں حکومتی پوزیشن سے متعلق توجہ مرکوز کی جائے گی۔
اشرف غنی کی جانب سے افغان سیاسی اور قبائلی رہنماؤں کی حمایت سے ایک مذاکراتی ٹیم تشکیل دیے جانے کے امکانات بھی ہیں۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2BQ0suq
0 comments: