Thursday, February 7, 2019

ٹینس کے بہترین کھلاڑی کا کریئرتباہ، وجہ میچ فکسنگ

کریم حسام
کریم حُسام دنیا کے بہترین نوجوان ٹینس کے کھلاڑیوں میں سے ایک تھے۔ وہ ٹینس کے اہم مقابلوں میں اس کھیل کے بہترین کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلتے نظر آتے تھے۔

پھر انجانے میں وہ بدعنوانی سے بھرے اس کھیل کے اب تک سامنے آنے والے سب سے بڑے میچ فکسنگ گروہ کا شکار ہو گئے۔ خفیہ دستاویزات کی روشنی میں اس نوجوان کھلاڑی کی تنزلی کی کہانی بی بی سی کے سائمن کوس اور پال گرانٹ سے سنیے۔

جون2017 میں تیونس میں ایک درمیانے درجے کے ہوٹل کے کمرے میں کریم حُسام کے ٹینس کرئیر کی گتھی اس وقت سلجھنا شروع ہوئی تھی جب 24 سالہ کھلاڑی برطانوی خفیہ پولیس کے دو سابقہ اہلکاروں کے سامنے بیٹھے تھے۔

وہ ٹینس انٹیگرٹی یونٹ کے تفشیش کار تھے جو کہ اس کھیل میں بدعنوانی کی چھان بین کرتے ہیں اور انھیں شک تھا کہ کریم میچ فکسنگ میں ملوث ہیں۔

چھ ماہ سے زائد تک جاری رہنے والی تفتیش میں کریم نے یہ راز افشا کیا کہ کس طرح چار سال پہلے وہ ٹینس کی دنیا کے سب سے بڑے میچ فکسنگ گروہ کا حصہ بنے۔

شرم الشیخ میں ہونے والا ‘انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن فیوچرز‘ نامی ٹورنامنٹ اس سحر، پیسے اور شائقین کے مجمع سے بلکل مطابقت نہیں رکھتا جو ومبلڈن اور فرنچ اوپن میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

یہ ٹورنامنٹ ایک شاپنگ مال سے متصل ایک چھوٹے ٹینس کلب میں کھیلا جاتا ہے اور دیکھنے والے معمولی تعداد میں ہوتے ہیں جب کہ پورے ٹورنامنٹ کی انعامی رقم صرف 15000 امریکی ڈالر ہے۔ یہ رقم ومبلڈن میں پہلے راونڈ میں ہارنے والے کھلاڑی کو ملنے والی رقم کا ایک چوتھائی حصہ ہے۔

سنہ 2013 میں اس ٹورنامنٹ میں دوبارہ مقابلے کے لیے آنے والے کریم حُسام اس ٹورنامنٹ کو پہلے ہی چار مرتبہ جیت چکے تھے۔ اس 20 سالہ نوجوان مصری کھلاڑی سے شمالی افریقن ٹینس کو کافی امیدیں وابستہ تھیں۔

ٹینس کے ٹاپ ٹین کھلاڑیوں میں شمولیت کے لیے تیار اور دنیا کے بہترین جونئیر کھلاڑیوں میں سے ایک ہونے کے باعث کریم حُسام نے ایسوسی ایشن آف ٹینس پروفیشنلز کے تحت ہونے والے مقابلوں میں اس کھیل کے مشہور کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا تھا۔

وہ آسٹریلین اوپن اور فرنچ اوپن میں کھیلے تھے۔ لیکن شرم الشیخ میں انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن ٹورنامنٹ دنیا بھر میں ہونے والے اس طرح کے ٹورنامنٹس میں سے تھا جہاں نچلے درجے کے کھلاڑی اپنی قسمت آزمائی کرتے ہیں۔

کریم حُسام ایک میچ کی تیاری کر رہے تھے جب ایک کھلاڑی ،جس کو وہ اچھی طرح نہیں جانتے تھے، ان کے پاس آیا۔ اس نے پوچھا ’کیا تم ایک ہزار امریکی ڈالر کے عوض میچ ہارنا چاہو گے؟‘

اس ہی کھلاڑی نے مہینوں پہلے حُسام سے قطر میں ہونے والے قطراوپن ٹورنامنٹ کے دوران بھی رابطہ کر کے یہ پوچھا تھا کہ کیا وہ 1000 ڈالر کے عوض میچ کا پہلا سیٹ ہارنا چاہیں گے۔

اس وقت حُسام کا مقابلہ دنیا کے بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک رچرڈ گیسکے کے ساتھ تھا۔ وہ حُسام سے 300 درجے اوپر اور دنیا کے بہترین کھلاڑیوں میں نویں نمبر پر تھے۔ حُسام نے جواب دیا ’میرا مدِ مقابل گیسکے ہے، میں یہاں میچ بیچنے نہیں آیا۔

لیکن شرم الشیخ میں معاملہ اور تھا۔ اس بات سے کوئی فرق نہ پڑتا تھا کہ وہ جیتیں یا ہاریں اور کافی سوچ بچار کے بعد حُسام نے ہارنے کے عوض پیسے لینے کا فیصلہ کیا۔

اس نے تفشیش کاروں کو بتایا ’میں ایسا صرف اس لیے کرنا چاہتا تھا کہ اس سے پہلے میں نے ایسا تجربہ کبھی نہیں کیا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ شخص دراصل مجھ سے جھوٹ بول ہے۔ مجھے علم نہ تھا کہ جوا درحقیقت وجود رکھتا ہے۔

لیکن وہ کھلاڑی جھوٹ نہیں بول رہا تھا اور میچ ہارنے کے بعد حُسام رقم وصولی کے لیے اس کے ساتھ ویسٹرن یونین کی ایک مقامی برانچ پر گئے تھے۔

اس میچ میں ملوث جواریوں نے ایک ہزار امریکی ڈالر سے کافی زیادہ کمائے ہوں گے اور دوسرے میچوں پر بھی رقم داؤ پر لگائی ہو گی، یا ایک ہی میچ پر ایک سے زیادہ شرطیں لگائی ہوں گی۔

قطر میں انٹرنیشنل سینٹر آف سپورٹس سکیورٹی کے ڈائریکٹر انسداد بدعنوانی فریڈ لارڈ کہتے ہیں کہ ’کسی بھی کھیل خاص کر ٹینس میں اگر آپ کو معلوم ہے کہ کون میچ فکسنگ میں ملوث ہے اور آپ اندر کی بات جانتے ہیں تو آپ اچھی رقم کما سکتے ہیں۔` ’ہم لگ بھگ پانچ لاکھ یوروز تک کی بات کر رہے ہیں۔`

جس بات کا کریم حُسام کو اندازہ نہ تھا وہ یہ تھی کہ 1000 امریکی ڈالر کے عوض اس نے اپنا کیرئیر بیچ دیا تھا۔

حُسام اس بات کو اپنے تک محدود نہ رکھ سکے اور انھوں نے اس بارے میں اپنے والد بتا دیا۔ ان کے والد نے ان کے کیرئر کے اخراجات کو برداشت کیا تھا۔ انھوں نے تفشیش کاروں کو بتایا کہ ان کے والد ’بہت غصہ ہوئے اور انھوں نے کہا کہ وہ اپنا زندگی تباہ کر رہے ہیں۔`

حُسام کا کہنا تھا کہ اس واقع کے بعد انھوں نے کوشش کی کچھ وقت کے لیے وہ دوبارہ ایسا نہ کریں۔ لیکن انھوں نے یہ بھی سوچا کہ مزید رقم کی مدد سے وہ اپنے کیرئیر کو آگے بڑھا سکتے ہے۔ ’میں بڑے مقابلوں میں شرکت کرنا چاہتا تھا جیسا کہ میں کیمپ میں شرکت کے لیے امریکہ جا رہا تھا اور اس کے لیے مجھے رقم کی ضرورت تھی۔

لہذا انھوں نے ہارنے کے عوض رقم لینا جاری رکھی اور بعد ازاں انھوں نے ایک فکسر کے طور پر بھی کام کیا جو جواریوں اور کھلاڑیوں کے درمیان رابطہ کار کا کام کرتے ہیں۔ بعض اوقات یہ پورا میچ ہارنے تک محدود ہوتا تھا اور کبھی میچ کا صرف ایک سیٹ ہارنے تک اور یہ اس پر منحصر ہوتا تھا کہ جواری کیا چاہتے ہیں یا ان کے لیے کیا بہتر ہے۔

اگلے چار سالوں میں انھوں نے مصر، تیونس اور نائجیریا میں درجنوں میچ فکس کروانے میں مدد دی اور ہر میچ فکس کروانے کے عوض انھیں 200 سے 1000 امریکی ڈالر ملے۔

بی بی سی کو ملنے والی خفیہ دستاویزات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کیسے اس نوجوان کھلاڑی نے فیس بک پر پیغام رسانی کے ذریعے درجنوں شمالی افریقن کھلاڑیوں کے لیے میچ فکسنگ کا بندوبست کیا۔ مئی 2016 میں انھوں نے ایک کھلاڑی کو اس پیشکش کے ساتھ رابطہ کیا ’دوست تم پہلا سیٹ ہار جاؤ اور اس کے بعد میچ جیت جاؤ۔ تمھیں 2500 ملیں گے۔` رقم ہمیشہ ڈالر میں ہوتی تھی۔

جب دوسرا کھلاڑی پیشکش قبول کر لیتا تو حُسام اس بات کو یقینی بناتے کہ کھلاڑی ان کی ہدایات کو سمجھے۔ ’تو تم پہلا سیٹ ہارو گے اور پھر میچ جیت جاؤ گے۔ کیا تم اچھی طرح سمجھے ہو؟` ’سکور کیا ہو گا یہ ضروری نہیں میں صرف چاہتا ہوں کہ تم پہلا سیٹ ہار جاؤ۔`

حُسام اس کو تاکید کرتے ہیں ’زیادہ ضروری یہ ہے کہ تم سیٹ ہارو اور پھر جیت جاؤ۔` کھلاڑی حُسام کو بتاتا ہے ’میں پرامید ہوں کہ ایسا ہی ہو گا کیوں کہ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔` وہ پوری دوپہر پیغامات بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں لیکن ایک مسئلہ کی وجہ سے یہ فکسنگ کامیاب نہیں ہوتی۔

مگر دیگر مواقع پر یہ بہت آرام سے ہو جاتی ہے۔ اگست 2016 میں وہ صبح سویرے ایک اور کھلاڑی کو پیغام بھیجتے ہے۔ ’ایک سیٹ کے عوض 3000۔ کھلاڑی دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے پوچھتا ہے ’ہارنے کے کتنے ملیں گے؟` اور اس کو بتایا جاتا ہے ’میرے دوست ہارنے کے 3000۔` اس مقابلے میں وہ کھلاڑی ہار جاتا ہے۔

بی بی سی کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق 20 سے زائد کھلاڑی جن میں سے زیادہ تر کا تعلق شمالی افریقہ سے ہے اس میں ملوث پایے گیے۔

ان میں سے بیشتر یا تو بالواسطہ میچ فکسنگ میں ملوث ہوئے یا جب ان سے رابطہ کیا گیا تو اس بارے میں وہ حکام کو آگاہ نہ کر سکے۔ ہر کھلاڑی جس کو رابطہ کر کے میچ فکس کرنے کا کہا جاتا ہے اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس حوالے سے حکام کو آگاہ کرے اور ایسا نہ کرنا جرم ہے جو کھیلنے پر لمبے عرصے تک پابندی کی سزا کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے۔

آخر کار جون 2017 میں ٹینس کے انسدادِ بدعنوانی حکام ان تک پہنچ گئے۔ تفشیش کاروں کو دیے گئے پہلے بیان میں انھوں نے بتایا کے وہ فکسنگ میں کیسے ملوث ہوئے۔

تحریری بیان کے مطابق انھوں نے بتایا کہ ’میں مزید اس طرح کھیلنے استطاعت نہیں رکھتا تھا، کیونکہ میرے والد میرے لیے رقم ادا کر رہے تھے، اور وہ میرے بھائی کا خرچ بھی اٹھا رہے تھے، میں اپنی کمائی بھی نہیں کر رہا تھا۔`

اس بیان کے بعد انھوں نے اپنے بھائی یوسف کو پیغام بھیجا جو خود بھی پیشہ ور ٹینس کھلاڑی ہیں۔

انھوں نے لکھا ’بھائی انھوں نے مجھے میرے کمرے میں پکڑ لیا ہے۔` ’میں بیوقوف تھا کہ میں نے کچھ چیزیں ڈیلیٹ نہیں کیں۔
حُسام اپنے بھائی کو بتاتے ہیں کہ وہ پرامید ہے کہ حکام سے تعاون کر کے وہ سخت پابندیوں سے بچ پائیں گے۔ ’میں انھیں بتا رہا ہوں کہ میں ان سے تعاون کروں گا۔ اگر ایسا ممکن ہے تو یہ بہت اچھا ہو گا۔ میں سفر کروں گا اور تمام فکسرز کو پکڑنے کے لیے پیسے لوں گا۔`

تاہم ایسا نہیں ہوا۔ ٹینس اینٹتگرٹی یونٹ کی تفتیش کے کچھ روز بعد کریم حُسام پر ٹینس کھیلنے کی عارضی پابندی لگا دی گئی۔ اسی دن اس نے ایک کھلاڑی کو پیغام بھیجا اور اس کو اپنی معطلی کی بابت بتایا مگر یہ عزم کیا کہ ’اب میں مزید جوا کھیلوں گا۔`

جنوری 2018 میں اپنے آخری بیان کے وقت کریم حُسام کہتے ہیں کہ انھیں بچوں کو تربیت دینے تک محدود کر دیا گیا۔ تفشیش کاروں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اس کھلاڑی کے خلاف شواہد دے گے جس نے سب سے پہلے انھیں یہ راہ دیکھائی۔

ایک تفشیش کار نے ان کو بتایا کہ ’ہمیں یقین ہے کہ اگر اس نے تمھارے ساتھ ایسا کیا ہے تو یقیناً دوسروں کے ساتھ بھی کیا ہو گا اور وہ اب تک ایسا کر رہا ہو گا۔` ’وہ کوئی شخص ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ اس سے اتفاق کریں گے، آپ اسے ٹینس سے باہر نکالنا چاہتے ہیں، کیوں کہ وہ خطرہ ہے کیوں کہ وہ نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت کرتا ہے۔ اگر یہ ایسا نہیں ہے تو تم اس جگہ نہ ہوتے جہاں تم ہو۔`

کریم پرامید تھا کہ ٹینس انٹیگرٹی یونٹ سے تعاون کرنے کی صورت میں اس کو کوئی فائدہ ہو گا مگر ایسا کرنے کے باوجود کچھ حاصل نہ ہونے پر وہ مایوس ہوا۔

اس نے ان کو بتایا ’میں نے بہت زیادہ معلومات فراہم کیں۔ میں نے کسی حوالے سے بھی جھوٹ نہیں بولا، اور میں قابلِ رسائی رہا۔`

لیکن ٹینس میں تاحیات پابندی پانے کے بعد، میرا مطلب ہے کے میں 17 سال سے ٹینس کھیل رہا ہوں، کچھ وجوہات نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ لیکن مجھے ان سب کا کوئی فائدہ دکھائی نہیں دیتا، سچ میں میرے پاس مزید شواہد نہیں ہیں، میرے پاس مذید باتیں نہیں ہیں۔`

جولائی 2018 میں کریم حُسام پر تاحیات پابندی لگا دی گئی۔ لیکن بی بی سی کے پاس اس حوالے سے موجود خفیہ دستاویزات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ انھوں نے اس کھیل کو گندا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

اگست 2018 میں انھوں نے ایک کھلاڑی کے ساتھ طویل گفتگو کی جس میں انھوں نے اس کو ایک مخصوص سکور کے ساتھ ایک سیٹ ہارنے کے عوض 3500 ڈالر کی پیشکش کی۔ آخر میں یہ بات باہر نکل گئی کے میچ فکس ہے اور جواری کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ جس پر کریم کو شک ہے کہ کھلاڑیوں میں سے کسی ایک نے یہ بات پھیلائی تھی۔

بی بی سی نے کریم حسام سے ان پیغامات اور ان کے دوسرے کھلاڑیوں سے روابط کے بارے میں پوچھا تاہم انھوں نے کوئی جواب نہ دیا۔

یہ دستاویزات ٹینس کے کھیل میں اب تک سامنے آنے والے سب سے بڑے میچ فکسنگ گروہ کے حوالے سے انکشاف کرتی ہیں، اس میں 20 سے زیادہ کھلاڑیوں جس میں زیادہ تر کا تعلق شمالی افریقہ سے ہے کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

گذشتہ ماہ پولیس نے سپین میں 15 رکنی میچ فکسنگ گروہ کو گرفتار کیا اور جس کہ بارے میں کہا گیا ہے کہ اس گروہ میں 28 سپین کے کھلاڑی ملوث تھے۔ اس گروہ کو جون 2018 میں بیلجیم کی پولیس نے بے نقاب کیا تھا۔

بی بی سی کو ملنے والی دستاویزات ظاہر کرتی ہیں کہ کریم کے رابطہ کاروں میں ایک ارمینائی بھی شامل تھا۔

میچ فکسنگ گروہ میں شامل ذیادہ تر کھلاڑیوں کو سزا نہیں دی گئی۔ اور وہ کھلاڑی جس نے کریم حسام کو سب سے پہلے کرپٹ کیا تھا جس کے بارے میں تفتیش کار اس کو ثبوت دینے کا کہتے تھے آج بھی پیشہ وارانہ ٹینس کھیل رہا ہے۔
بی بی سی نے جو دستاویزات دیکھی ہیں وہ ٹینس انٹیگرٹی یونٹ کو بھیج دی گئی ہیں اور یہ راز فاش کرنے والا جس نے بی بی سی سے رابطہ کیا تھا وہ یونٹ کے ردِ عمل پر تشویش کا شکار ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ٹی آئی یو بے اثر ہے کیوں کہ ان کے کام کرنے کا طریقہ غیر موثر اور سست ہے۔ وہ کسی کے بارے میں شواہد حاصل کرتے ہیں اور ان کی تفشیش دو سال بعد ختم ہوتی ہیں۔`

ایک کھلاڑی نے مجھے بتایا کہ وہ جلد ہی لازماً تاحیات پابندی کا شکار ہو گا مگر وہ پچھلے کئی ٹورنمنٹس میں دھڑلے سے کھیلا ہے۔ کھلاڑیوں کو ایسا موقع کیوں دیا جائے۔`

ٹینس انٹیگرٹی یونٹ کا موقف ہے کہ کھیلوں میں بدعنوانی کے خلاف لڑائی میں وہ صفِ اول پر کھڑے ہیں اور پچھلے دو سالوں میں 44 افراد کو سزا دی گئی جن میں 16 کو تاحیات پابندی کی سزا دی گئی۔ انھوں نے مزید کہا وہ جاری تفشیش کے بارے میں بات نہیں کر سکتے کیوں کہ ’عوامی انکشاف مشتبہ افراد کو چوکنا کر دے گا اور ایسا کرنے سے ٹھوس شواہد ضائع ہو سکتے ہیں۔`

سنہ 2018 میں بی بی سی کی خبر اور بزفیڈ کی تحقیق، جس میں غیر قانونی جوئے کے بارے میں انکشافات کیے گیے، کے بعد ایک آزاد نظرِ ثانی پینل نے ٹینس میں ایمانداری کے حوالے سے تحقیق کیں۔ اس کے مطابق ٹینس انٹیگرٹی یونٹ کے پاس کیسز کا بیک لاگ ہے اور اس کھیل میں بدعنوانی کا ’سونامی` موجود ہے۔

کھیل کے منتظم ادارے انٹرنیشنل ٹینس فیڈریشن نے بی بی سی کو بتایا ’ہم ٹینس کی سالمیت کے بارے میں مخلص ہیں اور اس حوالے سے ضروری اقدامات لے رہے ہیں۔` تاہم انھوں نے اقرار کیا کہ’ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔



from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں http://bit.ly/2SfBNcV

Related Posts:

0 comments:

Popular Posts Khyber Times