فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق صدیوں سے جاری روایت کے تحت منعقدo تقریب میں ملائیشیا کے نئے سلطان نے کوالالمپور میں واقع قومی محل میں عہدے کا حلف لیا۔
حلف برداری کی تقریب براہ راست نشر کی گئی تھی جس میں ملک کے وزیر اعظم مہاتیر محمد اور سیکڑوں مہمانوں نے شرکت کی۔
تاج پوشی سے قبل سلطان عبداللہ سلطان احمد شاہ نے پارلیمنٹ میں خصوصی تقریب میں شرکت کی جہاں انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔
خیال رہے کہ ملائیشیا کے نئے سلطان وسطی ریاست پاہانگ کے حکمراں بھی ہیں۔
گزشتہ ماہ ملائیشیا کے سلطان محمد پنجم 2 ماہ کی طبی رخصت پر جانے کے بعد تخت سے دستبردار ہوگئے تھے، اس دوران روسی حسینہ سابقہ 'مس ماسکو' سے ان کی شادی کی غیر مصدقہ خبریں بھی گردش میں تھیں۔
تاہم شاہی حکام کی جانب سے سلطان محمد پنجم کے اس فیصلے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تھی لیکن ملائیشیا کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا کہ بادشاہ اپنی مدت ختم ہونے سے قبل تخت سے دستبردار ہوئے تھے۔
سلطان محمد کے دستبردار ہونے کے بعد گزشتہ ہفتے ملائیشیا کے شاہی خاندانوں نے سلطان عبداللہ کو باقاعدہ طور پر ملک کا 16واں بادشاہ منتخب کیا تھا۔
ملائیشیا کے نئے بادشاہ ایتھلیٹ ہیں اور کھیل کے میدان میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، سلطان عبداللہ ماضی میں فیفا کی گورننگ باڈی کے رکن، ایشین ہاکی ایسوسی ایشن کے صدر اور ملائیشیا کی فٹ بال ایسوسی ایشن کے سربراہ تھے۔
سرکاری نیوز ایجنسی 'برناما' پر شائع کی گئی سوانح حیات کے مطابق سلطان عبداللہ نے ملائیشیا کے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد برطانیہ کے سندھرست ملٹری اکیڈمی سے تعلیم حاصل کی۔
خیال رہے کہ ملائیشیا میں آئینی طور پر شاہی نظام رائج ہے، تخت نشینی کا یہ نظام 1957 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد عمل میں آیا تھا۔
شاہی نظام کے تحت ہر 5 سال بعد ملائیشیا کی 9 مختلف ریاستوں کے حکمرانوں میں سے ایک تخت نشین ہوتا ہے۔
ملائیشیا میں بادشاہت کے رسمی کردار کے باوجود عوام کی جانب سے شاہی حکام کا بہت احترام کیا جاتا ہے اور ان پر تنقید کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
ملک بھر کی سرکاری عمارتوں پر بادشاہ اور ملکہ کی تصاویر آویزاں ہوتی ہیں، اس کے ساتھ ہی بادشاہ قوم کا علامتی سربراہ اور فوج کا نامزد سربراہ بھی ہوتا ہے۔
ملائشیا کے سلطانوں کی تاریخ 15ویں صدی کے ملائی سلطان سے جاملتی ہے اور بادشاہ کو 'یانگ دی پیرتن آگونگ' یعنی عظیم حکمراں کہا جاتا ہے۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں http://bit.ly/2UvN4T6
0 comments: