
سپریم کورٹ میں نجی اسکولوں کی فیسوں میں اضافے کے خلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ فیس میں سالانہ اضافے پر اتفاق نہیں ہوسکا، نجی اسکول صرف 8 فیصد فیس میں کمی پر تیار ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ میں نے تو فیس میں 20 فیصد کمی کا حکم دیا تھا، ایک اسکول کا ڈائریکٹر 85 لاکھ روپے تنخواہ لے رہا ہے، لاہور گرامر اسکول کے ڈائریکٹر کا چہرہ دیکھنا چاہتا ہوں، کوئی خدا کا خوف بھی ہوتا ہے، بندا روزانہ نوٹ پھاڑنا شروع کرے، ایک ماہ میں 85 لاکھ پھاڑ بھی نہیں سکتا، اتنی بڑی تنخواہ سی ای او اور ڈائریکٹر لے رہے ہیں، کیا ان لوگوں نے یورینیم کی کان لگا رکھی ہے۔آڈیٹر جنرل حکام نے کہا کہ نجی اسکول نے پانچ افراد کو 512 ملین تنخواہوں کی مد میں ادا کئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نجی اسکولز کو غیر ضروری منافع نہیں کمانے دیں گے، سرکاری اسکول اس قابل نہیں کہ والدین بچے بھجوا سکیں، مالکان ایک اسکول سے 250 اسکولوں کے مالک بن گئے۔
طلبہ کے والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہر سال فیس میں 10 سے 20 فیصد اضافہ کرنے والے اسکول 1 بار 20 فیصد کمی پر تیار نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عدالت کو بنیادی فیس کے حوالے سے قانون بنانا پڑے گا۔
چیف جسٹس نے ایف آئی اے اور ایف بی آر کے سربراہان کو فوری طور پر عدالت میں طلب کرتے ہوئے کہا کہ اسکولوں کا فرانزک آڈٹ کرائیں گے، مالکان ایک کمرہ کے اسکول سے اب صنعت کار بن گئے ہیں۔
عدالت نے ایف بی آر کو لاہور گرائمر اسکول کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور کو ابھی فون پر آگاہ کیا جائے، اکاؤنٹس کا مکمل ریکارڈ اور کمپیوٹر بھی تحویل میں لے لیے جائیں، لاہور گرائمر اسکول کے ڈائریکٹر کا پانچ سالہ ٹیکس ریکارڈ بھی پیش کیا جائے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تعلیمی ادارے کارپوریٹ ٹیکس ادا نہیں کرتے اور صرف اِنکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2CafI6a
0 comments: