
تحریری فیصلے کے مطابق عدالت نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 18 ملزمان کو مقدمے سے بری کردیا جبکہ عدالت نے7 مفرور ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا حکم دیا۔
مفرور ملزمان میں امان اللہ مروت،گدا حسین، محسن عباس، صداقت حسین شاہ، راجہ شمیم مختار، رانا ریاض اور شعیب عرف شوٹر شامل ہیں۔
تحریری فیصلے میں عدالت کا کہنا تھا کہ مقدمے میں شکوک و شہبات پائے گئے ، اسلامی اور یونیورسل اصول کے تحت شکوک وشہبات کا فائدہ ملزم کے حق میں جاتا ہے۔
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے تحریری فیصلہ میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اصول ہے کہ قاضی کی غلطی سے سزا دینے سے اس کی بریت بہتر فیصلہ ہے، عدالت کی نظر میں استغاثہ کیس ثابت نہیں کرسکی لہٰذا ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز 24 جنوری کو کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کردیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 14 جنوری کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جس کی سماعت مکمل ہونے میں 5 برس لگے، یہ التوا سوشل میڈیا پر کراچی میں جعلی مقابلوں کے حوالے سے بحث اور خاص طور پر اس کیس سے جڑے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر تنقید کا سبب بن تھا۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ماڈل نقیب اللہ محسود کراچی میں مقیم تھے، ان کے قتل نے سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے غم و غصے کو جنم دیا اور سابق ایس ایس پی اور ان کی ٹیم کی گرفتاری میں ریاست کی ناکامی کے خلاف سول سوسائٹی کی جانب سے ملک گیر احتجاج کا سبب بنا تھا۔
تاہم انسداد دہشت گردی کی جانب سے آج جاری ہونے والے تحریری فیصلہ میں بتایا گیا کہ سماعت کے دوران ملزمان کے وکیل نے کہا کہ استغاثہ کے مقدمہ میں شکوک وشہبات ہیں، جس کے تحت اس کا فائدہ ملزمان کے حق میں جاتا ہے جو دنیا کا اصول ہے۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/ir7gB8X
0 comments: