
خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں منعقدہ جی20 ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں ہوئی اور دونوں نے ملاقات کو اچھی رہی۔
بلنکن نے پریس بریفنگ میں بتایا کہ میں نے چین کے اسٹیٹ کونسلر کے سامنے ایک مرتبہ پھر وہی بات رکھی کہ ہمیں چین کے روس کی طرف جھکاؤ پر تشویش ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ چین غیرجانب کردار ادا کر رہا ہے جیسا کہ اقوام متحدہ میں روس کی حمایت کی ہے اور روس کے پراپیگنڈا کو تقویت دی۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ چینی صدر شی جن پنگ نے روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن کو 13 جون کو ٹیلی فونک رابطے میں واضح کیا تھا کہ وہ روس کے ساتھ شراکت داری کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔
روس کی جانب سے 24 فروری کو یوکرین پر حملے سے قبل ہی بیجنگ اور ماسکو نے لامحدود شراکت داری کا اعلان کیا تھا تاہم امریکی عہدیدار کہتےہیں کہ انہوں چین روس پر عائد امریکی پابندیوں سے بچ رہا ہے یا فوجی آلات فراہم کر رہا ہو۔
امریکی عہدیداروں نے چین کو پابندیوں سمیت سنگین نتائج سے خبردار کیا تھا کہ اگر ماسکو کو مدد فراہم کی گئی جس میں یوکرینی فوج کو کمزور کرنے کے لیے مدد بھی شامل ہے۔
دوسری جانب کیف اور مغرببی اتحادی کہتے ہیں کہ مداخلت بلااشتعال کیا گیا ایک اقدام ہے۔
بلنکن نے روسی وزیرخارجہ سے مذاکرات سے انکار کے بارے میں سوال پر کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں کوئی اشارہ نہیں ملا کہ اس وقت روس معنی خیز سفارت کاری کے لیے تیار ہے۔
دوسری جانب چینی وزارت خارجہ سے جاری بیان کے مطابق وانگ یی نے کہا کہ یوکرین کے مسئلے پر بلنکن کے ساتھ تفصیلی تبادلہ خیال ہوا تاہم تفصیل نہیں دی گئی۔
انہوں نے بلنکن سے کہا کہ امریکا اور چین کے تعلقات کی سمت خطرناک تھی جو امریکا کے چین کے حوالے سے تصور پر مزید گھمبیر ہوا ہے۔
وانگ یی نے کہا کہ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ امریکا کو چین کے حوالے سے فوبیا ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن کو چاہیے کہ چین پر عائد اضافی ٹیرف فوری ختم کرے اور چینی کمپنیوں پر عائد یک طرفہ پابندیاں بھی ختم کردیں۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/JlNEuxz
0 comments: