
دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے باعث تیل کی کھپت میں کمی اور عالمی منڈیوں میں اس کی قیمت میں گراوٹ نے عرب ریاستوں کے سب سے بڑے ذریعہ آمدن کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق کویت میں ایسی قانون سازی کی جا رہی ہے کہ وہ قرضے کے لیے بین الاقوامی منڈی کا در کھٹکھٹا سکے۔
کویت میں قانون ساز چاہتے ہیں کہ حکومت فنڈز اور ادائیگیوں کے معاملے میں زیادہ شفافیت کا مظاہرہ کرے۔ ایک حکومتی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’اگر قرضوں سے متعلق قانون منظور نہیں ہوتا تو حکومت کو صحیح معنوں میں ہر معاملے میں بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘
اس مجوزہ قانون پر کویت کی پارلیمانی کمیٹی میں بحث بھی ہوئی ہے اور اس کے تحت کویت 30 برس میں 20 ارب ڈالر تک قرض لے سکتا ہے۔
گذشتہ چند برسوں میں دیگر خلیجی ممالک بھی قرض کے لیے بین الاقومی منڈیوں میں جا چکے ہیں خاص طور پر جب تیل کی قیمتوں میں کمی اور وبا کے باعث عالمی سطی پر تیل کی طلب میں کمی واقع ہوئی۔
سعودی عرب بھی اسی کشتی کا سوار
سعودی عرب بھی کبھی ٹیکس سے پاک ہونے کے لیے مشہور تھا۔ لیکن وہاں ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو پانچ فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور ماہانہ رہائشی سبسڈی بھی منسوخ کر دی گئی ہے۔
یہ فیصلہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد حکومتی محصولات میں 22 فیصد کی کمی کے بعد کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ملک یمن میں جنگ نے پانچ سال سے زیادہ عرصے سے سعودی عرب کے خزانے کو بغیر کسی خاص فائدے کے نچوڑا ہے۔
سعودی عرب کے پاس پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے نام سے تقریباً 320 ارب ڈالر مالیت کا ساورین ویلتھ فنڈ موجود ہے جس پر وہ اب انحصار کرے گا۔
اس کے پاس سرکاری ملکیت والی تیل کمپنی آرامکو بھی ہے جس کی قیمت گذشتہ سال 17 کھرب ڈالر لگائی گئی تھی جو کہ اُس وقت گوگل اور ایمیزون کی مشترکہ قیمت کے برابر تھی۔ حال ہی میں کمپنی کا صرف ڈیڑھ فیصد حصہ فروخت کر کے سعودی عرب نے شیئر لسٹنگ کی تاریخ میں سب سے بڑا فنڈ، 25 ارب ڈالر، اکٹھا کیا تھا۔
کووڈ 19 وائرس اور تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے سعودی عرب کے مرکزی بینک کو تقریباً 26 ارب ڈالر کا نقصان محض مارچ کے مہینے میں اٹھانا پڑا۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2CXOPF6
0 comments: