
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے جمعے کو اپنی خصوصی پریس بریفنگ میں دعوی کیا کہ بھارت نے ایک سال کے دوران کلبھوشن یادیو کو سفارتی رسائی کے لیے پاکستان سے بارہ مرتبہ درخواست کیں لیکن پاکستان اب تک ان سے مداخلت کے بغیر رسائی فراہم نہیں کر پا رہا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ 16 جولائی 2019 کو ہندوستانی سفارت کاروں سے ملاقات کے دوران پاکستانی سرکار نے رکاوٹ ڈالی اور اس موقع پر اسے سختی سے ہدایت کی تھی کہ وہ کوئی تحریر شدہ کاغذ بھارتی سفارتکار کو نہیں دے سکتے۔ انہوں نے مفروضے کی بنیاد پر پاکستان پر لگائے جانے والے اس طرز عمل پر پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی عدالت کی توہین کے مترادف قرار دے دیا۔
دوسری جانب ، وزیرِ قانون فروغ نسیم نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پاکستان قونصلر رسائی نہیں دے گا تو بھارت عالمی دنیا میں شور مچائے گا، اگر آرڈیننس نہ لاتے تو بھارت سلامتی کونسل میں چلا جاتا۔ان کا کہنا تھا کہ کلبھوشن سے متعلق آرڈیننس لا کر پاکستان نے بھارت کے ہاتھ کاٹ دیے ہیں، اس آرڈیننس کو کسی نے تکیےکے نیچے لکھ کر نہیں بنایا۔
وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ کلبھوشن یادیو بارے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل نہیں کریں گے تو پاکستان پر پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں، عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں آرڈیننس بنایا گیا ہے‘ یہ حساس معاملہ ہے اس پرسیاست نہ کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ آرڈیننس کے حوالے سے ایوان میں بات ہوئی، اس آرڈیننس کے حوالے سے درست حقائق اپوزیشن کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اس کی کچھ تاریخیں بہت اہم ہیں۔3 مارچ 2016ء کو کلبھوشن کو گرفتار کیا جاتا ہے، اس وقت وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ اس کو قونصلر رسائی نہیں دینی ہے۔
8 مئی 2017ء کو بھارت نے آئی سی جے میں کیس فائل کردیا،پاکستان آئی سی جے سے باہر نہیں آ سکتا تھا،آئی سی جے فیصلہ دیتی ہے کہ قونصلر رسائی دینی چاہیے۔ آئی سی جے کے فیصلے کے مطابق آرڈینس بنایا گیا، این آر او وہ ہوتا ہے۔
جو پرویز مشرف نے سزائیں معاف کردیں۔اس آرڈیننس میں کوئی سزا معاف نہیں کی گئی۔ ہمیں عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں کو تسلیم کرنا ہے، اگر ایسا نہیں کرتے تو بھارت ہمارے خلاف جا کر پابندیاں لگوا سکتا ہے۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/32Vbi0C
0 comments: