
پاکستان میں تیزی سے خود رو جڑی بوٹیوں کی طرح اگتی کمرشل اور رہائشی عمارات سے پاکستان کی زرعی خاصیت مانند پڑنے لگی ہے۔ جہاں کبھی زرخیز زمینوں پر سرسوں کے یپیلے پھول مہکا کرتے تھے اور گندم کی سنہری ڈالیاں ہواؤں کے سنگ جھولا کرتی تھیں۔ وہاں اب کنکریٹ کی فصلیں اگی ہیں۔ زرخیز زمینوں کو عمارات کے جنگل میں بدلنے میں صاحب اقتدار، لینڈ مافیا، سوسائٹی مالکان سب ہی برابر کے شریک ہیں۔
عمارات کی تعمیر دور عصر کی ضرورت سہی مگر منصوبہ بندی اور توازن کے فقدان نے آوے کا آوہ ہی بگاڑ دیا ہے۔ بلدیاتی اداروں کے ہاتھ پاؤں بندھے ہیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعاون کی بجائے راہ میں روڑے اٹکاتی نظر آتی ہیں۔ بس شاہراؤں اور سڑکوں کی صورت میں حکومت کی جانب سے واحد سہولت سے فاصلے سمٹ گئے ہیں۔
گاؤں، دیہات، قصبوں نے گزشتہ دہائی سے تیزی سے ترقی کی ہے۔ شہر بھی دھڑا دھر رہائشی عمارات اور کمرشل تعمیرات کے باعث پھیل گئے ہیں۔ اس پر زمین کے سینے پر اگتی بے ہنگم ہاؤسنگ سوسائٹیز نے تیزی سے زرعی زمینوں شہروں میں ضم کرنا شروع کر دیا ہے۔
موجودہ حکومت میں زرعی زمینوں کو بچانے کے لیے وزیراعظم کے فیصلے سے امید کی کرن جاگی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کی حوصلہ افزائی اور پلاننگ کا فیصلہ کیا ہے۔ مگر ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس حوالے سے جامع اور طویل المدت پالیسی لائیں اور اس میں بلدیاتی اداروں کو بھی شامل کریں۔اس کے ساتھ ساتھ کسانوں کو زرخیز زمینوں کی بجائے سیم اور تھور والی زمینوں کو رہائشی اور کمرشل تعمیرات کے لیے زیر استعمال لانے کے حوالے سےا ٓگاہی دی جائے۔
سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر زمین سے رزق کمانے والے اور اس کی خون پسینے سے آبیاری کرنے والوں کو آخر ایسی کیا مجبوری پڑی کہ انہیں سونا اگاتی زمین فروخت کرنا پڑتی یا اس پر تعمیرات کرانا پڑتیں۔ اپنے باپ دادا کی زمینوں کو چند پیسوں کے عوض بیچنے کا سبب کیا ہے۔ گندم، چاول، گنا، کپاس اور سبزیوں کی پیداوار مسلسل کم ہو رہی ہے۔ بے ہنگم آبادیوں کے باعث گندم میں خود کفیل ملک گندم درآمد کرنے پر مجبور ہے تو سونا اگلتے کھیت کالونیز میں تبدیل ہو رہے ہیں۔
پنجاب ،سندھ اور خیبر پختو نخوا میں زمینوں کو نگلتی آبادی کاریوں سے شہر پر شہر بسے جا رہے ہیں مگر بڑھتی آبادی کے لیے دن بدن اناج کی پیداوار کم ہی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اگر اس رجحان کو نہ روکا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب آنکھیں ہرے بھرے کھیتوں کو دیکھنے کے لیے ترسیں گیں۔ جب دور دور تلک ڈھونڈنے سے بھی سبزہ زار ملیں گے نہ پھلوں کے باغات اور نہ ہی فصلوں کی سوغات۔
درختوں کے جھنڈ دیکھنے کو ملیں گے نہ ان پر چہچہاتے پرندوں کی مترنم آوازیں، بس آنے والی نسلوں کی آنکھیں آسمان کو چھوتی عمارات کو تکتے تھک جائیں گی تو نظریں عمارات کے جنگل میں الجھ کر رہ جائیں گی۔ ہمارے ملک کے کسان فصلوں کی آبیاری کی بجائے پچھتاوے پالیں گے اور پھر ہر گاؤں کے باسی سوال کریں گے کہ میرا گاؤں کہاں کھو گیا ہے؟ ۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2H5CzkH
0 comments: