
نجی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے بیرسٹر شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ2018 میں برطانیہ کے سیکریٹری داخلہ جسٹس اینڈ اکاونٹیبلٹی کا معاہدہ ہوا تھا، جتنے کیسز ہیں جسٹس اینڈ اکاونٹیبلٹی کے دائرہ کار میں پیروی کر رہے ہیں، مختلف قوانین ہیں اور مختلف کیسز کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے، این سی اے کی پریس ریلیز میں ہے کہ پیسا حکومت کو ملے گا اور کیس میں جو پیسے ملے ہیں معاہدہ طے ہوا ہےکہ مزید تفصیلات نہیں بتاسکتے۔
این سی اے کی پریس ریلیزمیں جو بتایاگیا اس سے زیادہ نہیں بتا سکتے، جن کیسز کی باہر پیروی کررہے ہیں ان میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جس پربات نہیں کی جاسکتی، بیرون ملک ایجنسی کےساتھ کام کرتےہیں توان کےقوانین کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ میری پریس ریلیزمیں ہےکہ سیٹلمنٹ میں جو پراپرٹی ہےوہ پہلے حسن نواز کی تھی ،ون ہایئڈپارک مارچ2016 میں فروخت کی گئی، یہ پراپرٹی حسن نواز سے خریدی گئی تھی، مزیدتفصیلات میں نہیں جاسکتا ،پہلے والے ایپیسوڈ میں کیا کام ہورہا ہے وقت آنے پر بتائیں گے۔
پریس ریلیز کی حد تک ہی اس کیس پربات کی جا سکتی ہے، جو کیسز پاکستان کے دائرہ کار میں ہیں ان پر ہم بات کرسکتےہیں اور بات کرتے ہیں۔ بیرسٹر شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ اگر ایک کیس میں ہمیں کامیابی ہوتی ہے تواس کی مختلف حکمت عملی ہوتی ہے،ایون فیلڈکیس کو بھی دیکھ رہےہیں،ایون فیلڈ کیس میں حتمی فیصلہ نہیں ہے،اس لیےفریزنگ نہیں کرسکتے، مختلف کیسز کو آگے بڑھا رہےہیں لیکن یہ سیٹلمنٹ کامعاملہ ہے۔
این سی اے کی پریس ریلیز میں ہے کہ پیسا حکومت کو ملے گا، اس پیسے کو آنے والے دنوں میں کیسے خرچ کیا جائے گا بعد میں پتا چلے گا،ملک ریاض جو بھی کہہ رہے ہیں لیکن این سی اے کیا کہہ رہے وہ دیکھیں، اسٹیٹ بینک میں کوئی پیسے نہیں جاتے وہ ایک ریگولیٹر ہے،یہ ٹرانزیکشن کاصرف ایک حصہ ہےاس سے پہلے بھی ٹرانزیکشن کا حصہ تھا، جیسے یہ پیسے آئے آگے بھی آ سکتے ہیں، آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کرسکتے ہیں ،رقم کی وصولی کیساتھ رازداری کےمعاہدے پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/33TxWTR
0 comments: