Sunday, April 7, 2019

انٹرپول ریڈ وارنٹ ’گرفتاری کا عالمی نظام خطرے میں‘

انٹرپول ریڈ وارنٹ ’گرفتاری کا عالمی نظام خطرے میں‘
ریڈ وارنٹ کو بین الاقوامی سطح پر جرائم پیشہ افراد کے خلاف انٹرپول کا سب سے بڑا اور مؤثر ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ مبصرین کے مطابق اصلاحات کے باوجود گرفتاری کا یہ عالمی نظام آمرانہ حکومتوں کے ہاتھوں غلط استعمال ہو رہا ہے۔

انٹرپول یا بین الاقوامی پولیس آرگنائزیشن کی جانب سے ریڈ وارنٹ جاری کیے جاتے ہیں۔ اس کا مقصد دنیا کے کسی ملک کے حکام سے کسی ایسے ملزم کی گرفتاری کی درخواست کی جاتی ہے، جو انٹرپول کے کسی رکن ملک کو مطلوب ہوتا ہے۔

تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے متعدد مرتبہ گرفتاری کے اس عالمی نظام پر تنقید کر چکی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ کئی ممالک کی حکومتیں اپنے مخالفین و ناقدین کے ساتھ ساتھ خطرناک مجرموں کو گرفتار کرنے کے لیے اس نظام کا ناجائز استعمال کر رہی ہیں۔ ان کے بقول اس نظام میں اصلاحات کے باوجود مسائل ابھی تک حل نہیں ہو سکے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق روس، چین اور ترکی اس نظام کو ناجائز طور پر استعمال کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہیں۔ ساتھ ہی اس فہرست میں لاطینی امریکی خطے اور مشرق وسطی کے کئی ممالک کی آمرانہ طرز کی حکومتیں بھی شامل ہو چکی ہیں۔

غیر سرکاری تنظیم ’فیئر ٹرائلز‘ کے ایلکس مِک کے مطابق،’’اس بارے میں کوئی تفصیلات عام نہیں ہیں کہ دنیا کے کس ملک نے کتنی مرتبہ سیاسی طور پر یا غلط انداز میں ریڈ وارنٹ کا غلط استعمال کیا ہے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں،’’روس، چین اور ترکی کی طرح ہمارے سامنے مصر، آذربائیجان، متحدہ عرب امارات، ایران، انڈونیشیا، بحرین اور دیگر ممالک کی مثالیں بھی ہیں۔‘‘

اس تناظر میں بتایا گیا کہ مصر سے تعلق رکھنے والے سید عبدالطیف نے 2012ء میں تشدد کے بعد اپنا ملک چھوڑ کر آسٹریلیا میں جا کر سیاسی پناہ لی تھی۔ تاہم انٹرپول قاہرہ کے کہنے پر ان کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کیے گئے تھے اور اسی بنیاد پر انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

کارلے ڈینکے نے کم از کم بیالیس افراد کا قتل کیا اور پھر اُن میں سے کئی کا گوشت بھی کھاتا رہا۔ زیادہ تر مقتولین کا تعلق دیہات سے تھا۔ یہ سن 1903 سے 1924 کے دوران سرگرم تھا۔ ایسا بھی خیال کیا گیا کہ اُس نے بعض مقتولین کا گوشت موجودہ پولینڈ کے شہر وراٹس وہاف میں سور کا گوشت قرار دے کر فروخت بھی کیا۔ ڈینکے نے جیل میں خود کو پھندا دے کر خودکشی کر لی تھی۔

اس کے بعد انہوں نے مہاجرین کے لیے مخصوص ایک جیل میں پانچ سال گزارے۔ تاہم ورانٹ واپس لیے جانے کے بعد انہیں رہائی نصیب ہوئی۔

اسی طرح بحرین کے فٹ بالر حکیم العریبی کو بھی 2017ء میں آسٹریلوی حکام نے پناہ گزین کے طور پر قبول کیا تھا۔ تاہم اسی برس نومبر میں تھائی لینڈ میں ہنی مون کے دوران انہیں انٹرپول کے کہنے پر گرفتار کر لیا کیا گیا تھا۔ اس کی ایک مثال ترک نژاد جرمن مصنف دوگان اخانلی کی ہے، جنہیں ترکی کی جانب سے ریڈ وارنٹ کے اجراء پر اسپین میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ کئی ماہ تک اسپین سے باہر نہیں جا سکے تھے۔



from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں http://bit.ly/2WU0zNx

Related Posts:

0 comments:

Popular Posts Khyber Times