
دماغی عکس نگاری کی پیچیدہ اور حساس تکنیکیں استعمال کرتے ہوئے سوئنربرن یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی، آسٹریلیا میں اعصابی ماہرین کی ایک ٹیم نے سراغ لگایا ہے کہ دن میں دوپہر 2 بجے کے لگ بھگ ہمارا دماغ انتہائی سست پڑا ہوتا ہے۔
البتہ دماغ میں پیدا ہونے والی یہ سستی اور کاہلی کسی کھانے کا نتیجہ ہر گز نہیں ہوتی بلکہ اس کی وجہ وہ قدرتی حیاتیاتی گھڑی (بایولاجیکل کلاک) ہے جو ہمارے سونے جاگنے کے سارے معمولات کنٹرول کرتی ہے۔ واضح رہے کہ حیاتیاتی گھڑی ایک پیچیدہ قدرتی نظام کا نام ہے جسے طبّی زبان میں ’’سرکاڈیئن ردم‘‘ کہا جاتا ہے۔
اسی نظام کی بدولت ہم دن میں جاگتے ہیں اور رات میں سوتے ہیں، صبح کا ناشتہ کرکے چاق و چوبند محسوس کرتے ہیں اور رات کے کھانے کے بعد ہمیں خود بخود ہی نیند آنے لگتی ہے۔
دماغ میں نچلی طرف موجود ایک حصے ’’پیوٹامن‘‘ میں ہونے والی سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ماہرین پر انکشاف ہوا کہ یہاں موجود وہ علاقے جن کا تعلق فیصلے کرنے، سیکھنے، توجہ مرکوز کرنے اور ایسے ہی دوسرے کاموں سے ہے، ان تمام علاقوں میں (مجموعی طور پر) تقریباً دوپہر 2 بجے سرگرمیاں انتہائی کم ہوتی ہیں۔
ان کم تر سرگرمیوں ہی کے باعث ہمارے اعصاب پر سستی طاری ہونے لگتی ہے اور ہمارا دل قیلولہ کرنے کو چاہنے لگتا ہے۔ بعض لوگوں میں یہ کیفیت اتنی شدید ہوتی ہے کہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے ہی سو جاتے ہیں۔
چونکہ عام طور پر یہ دوپہر کے کھانے کے فوراً بعد کا وقت ہوتا ہے اس لیے یہ غلط فہمی عام ہے کہ شاید یہ کیفیت دوپہر کا کھانا کھانے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ کچھ لوگ کام کے اوقات میں اس نیند سے بچنے کےلیے دوپہر کا کھانا ہی چھوڑ دیتے ہیں لیکن انہیں اس تدبیر کا بھی کوئی افاقہ نہیں ہوتا بلکہ وہ الٹا اپنی ہی طبیعت خراب کرلیتے ہیں۔
اگرچہ اب تک یہ تو معلوم نہیں ہوسکا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ سرکاڈیئن ردم میں دوپہر 2 بجے کا وقت وہ ہوتا ہے جب یہ نظام ہمارے دماغ کو آرام کرنے پر مجبور کرتا ہے تاکہ وہ تازہ دم ہوجائے دن کے باقی حصے میں اپنی کارکردگی برقرار رکھے۔
یہی وجہ ہے کہ دوپہر میں کچھ دیر کا آرام کرنے والے لوگ رات کو سوتے وقت تک چاق و چوبند رہتے ہیں۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں http://bit.ly/2BIyIYD
0 comments: