
دی گلڈر لینڈر کی ایک رپورٹ کے مطابق 50 سالہ طالب علم محسن سعید پیر (10 دسمبر) سے یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف بینر اٹھائے کھڑے نظر آتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ وہ اپنا احتجاج کرسمس تک جاری رکھیں گے۔
محسن نے فیکلٹی آف سائنس کے پروفیسرز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ، 'یہ لوگ مجھ سے تعصب برتتے ہیں'۔
محسن کے مطابق، '2016 میں، میں اپنا ماسٹرز کا تھیسس پییر لکھنا چاہتا تھا، لیکن مجھے کہا گیا کہ اس کی اجازت صرف اُسی وقت ملے گی، جب میں متعلقہ مضمون میں کامیاب ہوں گا'، تاہم وہ یہ امتحان پاس نہ کرسکے۔
محسن کے مطابق، 'پروفیسرز نے یہ جان بوجھ کر کیا، جس کی وجہ یا تو میری جلد کی رنگت ہے یا پھر میرے عقائد'۔
انہوں نے اسے نسلی تعصب قرار دیتے ہوئے بتایا کہ کچھ سفید فام طلبہ کو متعلقہ مضمون لیے بغیر ہی تھیسس لکھنے کی اجازت دے دی گئی۔
محسن نے یہ معاملہ یونیورسٹی کی شکایات کمیٹی کے سامنے اٹھایا، تاہم کمیٹی نے انہیں ہی قصوروار قرار دیا، جس کے بعد وہ یہ معاملہ پولیس کے پاس بھی لے گئے، تاہم ان کے پاس بہت کم شواہد تھے۔
رابطہ کرنے پر شکایات کمیٹی کے ترجمان کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ ہر طالب علم کو شکایت کرنے کا اختیار حاصل ہے اور اگر وہ نتائج سے مطمئن نہیں ہے تو اسے احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے۔
تاہم الزام کا سامنا کرنے والے پروفیسر کلیس (Kleiss) نے کسی بھی قسم کے تعصب کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دروازے محسن سعید کے لیے کھلے ہیں۔
دوسری جانب محسن سعید کا احتجاج جاری ہے، جن کا موقف ہے کہ 2014 میں والد کی وفات کے بعد وہ اپنی جزوی طور پر نابینا والدہ کی کوئی مدد نہیں کر پا رہے، کیونکہ ان کا ماسٹرز مکمل نہیں ہوا، جس کی وجہ سے وہ ملازمت بھی نہیں کرسکتے۔
واضح رہے کہ 2015 اور 2016 میں بھی ریڈبوڈ یونیورسٹی کو انتظامی امور سے متعلق بالترتیب 19 اور 35 شکایات موصول ہوئی تھیں۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2RYI7l1
0 comments: