
وزیر اعظم عمران خان نے اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام معزز مہمانوں کو پاکستان میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ افغانستان 40 سال خانہ جنگی کا شکار رہا ہے اور افغانستان کی بیرونی امداد بند ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جتنی مشکلات افغان عوام نے اٹھائیں کسی اور ملک کے عوام نے نہیں اٹھائیں اور افغانستان کے 4 کروڑ عوام کو بحران کا سامنا ہے جبکہ افغانستان کے حالات کی وجہ سے پاکستان نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا۔
عمران خان نے کہا کہ افغانستان کی مدد کرنا ہماری مذہبی ذمہ داری ہے اور دنیا کو افغان ثقافت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کا بینکنگ نظام جمود کا شکار ہے اور اگر اس وقت دنیا نے افغانستان کی مدد نہ کی تو یہ انسانوں کا پیدا کردہ بہت بڑا بحران ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ افغان آبادی غربت کی لکیر سے نیچے آ رہی ہے اور اس وقت افغانستان کی صورتحال انتہائی سنگین صورتحال اختیار کر چکی ہے۔ افغان عوام کی مدد کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ افغان مسئلے پر دنیا کی خاموشی قابل افسوس ہے۔
یہ مدد کا ہاتھ بڑھانے کا وقت ہے، پیچھے ہٹنے کا نہیں، شاہ محمود قریشی
غیر معمولی اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا جس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افتتاحی سیشن سے خطاب کیا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اجلاس بلانے میں سعودی عرب کی قیادت کی تعریف کرتے ہوئے رکن ممالک اور دیگر وفود کے ساتھ او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ کو خوش آمدید کہا کہ اور کہا کہ ان کے تقرر کے بعد یہ پہلا وزارئے خارجہ اجلاس ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان، او آئی سی کی جانب سے ہم پر کیے گئے اعتماد پر شکرگزار ہے، مختصر نوٹس پر آپ کی یہاں موجودگی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ دنیا اور او آئی سی کے لیے افغانستان کے عوام اہمیت رکھتے ہیں، اس اجتماع کی اہمیت محض علامتی سے بالاتر ہے کیونکہ یہ افغان عوام کی بقا کا معاملہ ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ او آئی سی کا اجلاس افغانستان کے لوگوں کے مسائل سے متعلق ہے، افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے، کروڑوں بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور ورلڈ فوڈ پروگرام بھی افغانستان میں خوراک کی کمی کے مسئلے کی نشاندہی کر چکا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ یہ صورتحال کئی عوامل کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے جیسا کہ برسوں کے تنازعات، ناقص حکمرانی اور غیر ملکی امداد پر ضرورت سے زیادہ انحصار جبکہ بدقسمتی کی بات ہے کہ افغانوں کی مشکلات اور مصائب میں کمی نہیں آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگست 2021 نے افغانستان میں سیاسی منظر نامے کو بدل دیا ہے، لیکن لوگوں کی ضروریات وہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں ’دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران جنم لے سکتا ہے‘ جبکہ معاملات کا ’براہ راست علم رکھنے والے‘ اس حوالے سے ’سنگین انتباہ‘ دے رہے ہیں۔
وزیر خارجہ نے اسلامی دنیا پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے لوگوں کے ساتھ اسی طرح کھڑی ہو جس طرح اس نے وہ فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت میں کھڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ اجتماعی مدد کا ہاتھ بڑھانے کا وقت ہے، حمایت روکنے کا وقت نہیں ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ او آئی سی نے لوگوں کے حقوق کی مسلسل حمایت کی ہے اور باقی دنیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی معاشی اور مقامی مجبوریوں سے بالاتر ہو کر سوچے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان، افغانستان میں انسانی بحران کا گواہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے متاثر بھی ہے، جبکہ وہاں ’مکمل معاشی بدحالی‘ کو رد نہیں کیا جاسکتا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں انسانی بحران اور معاشی تباہی کے نتائج ہولناک ہوں گے، ہمیں ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے جبکہ پاکستان اپنے افغانی بھائیوں کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ او آئی سی کے اجلاس کو ’نظر آنے والی تبدیلی‘ کا آغاز کرنا چاہیے اور جنگ زدہ ملک کے لوگوں کو دکھانا چاہیے کہ وہ ان کی معیشت اور ملک کو مستحکم کرنے میں ان کی مدد کرنے کے لیے متحد ہے۔
اپنی تقریر کے اختتام پر وزیر خارجہ نے ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ افغانستان میں بحران کا رخ موڑنے کے اس ’تاریخی موقع‘ سے فائدہ اٹھائیں۔
افغان عوام نے طویل عرصے تک مشکلات برداشت کی ہیں، سعودی وزیر خارجہ
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود نے کہا کہ افغانستان میں معاشی مشکلات انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہیں اور مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہیں جس سے علاقائی اور بین الاقوامی امن متاثر ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ او آئی سی کے اجلاس نے افغانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور دنیا کو دکھایا ہے کہ جنگ زدہ ملک کی موجودہ صورتحال کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے عوام طویل عرصے سے مشکلات اور عدم استحکام کا شکار رہے ہیں۔
سعودی وزیر خارجہ نے او آئی سی کے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ افغان عوام کو ضروری مدد فراہم کرنے اور ملک میں معاشی تباہی کو روکنے کے لیے کردار ادا کریں۔
ماضی میں مملکت کی طرف سے فراہم کی جانے والی امداد پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے حال ہی میں فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ہدایت پر افغانستان کے عوام کے لیے اشیائے خورونوش ہوائی جہاز سے پہنچائی تھیں۔
فیصل بن فرحان نے افغانستان میں اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردانہ اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم امن اور سلامتی کو فروغ دیتے ہیں اور اس کے لیے بین الاقوامی برادری سے تعاون پر مبنی اقدام کی ضرورت ہے‘۔
اپنی تقریر کے اختتام میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ او آئی سی کے اجلاس میں افغان عوام کو درپیش مشکلات کے خاتمے کے لیے مناسب حل اور سفارشات سامنے آئیں گی۔
افغان عوام کو امداد کی فراہمی بہت ضروری ہے، سیکریٹری جنرل او آئی سی
او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین ابراہیم طحہٰ نے کہا کہ او آئی سی، افغانستان کی صورتحال پر نظر رکھی ہوئی ہے اور ہم اس اجلاس کو افغان عوام کی مدد کے حوالے سے بہت اہم سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغان عوام کو درپیش انسانی بحران کے پیش نظر اس وقت ان کے لیے انسانی امداد کی فراہمی بہت ضروری ہے اور ہم تمام رکم ممالک کو کابل میں او آئی سی مشن کے ذریعے افغان عوام کو انسانی مدد فراہم کرنے کی درخواست کرتے ہیں
انہوں نے امید ظاہر کی کہ افغانستان میں تمام فریقین مل کر کام کرنے پر اتفاق کریں گے۔
اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اور مبصرین کے علاوہ اقوام متحدہ، بین الاقوامی مالیاتی اداروں، امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، روس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور یورپی یونین سمیت غیر رکن ممالک کو بھی شرکت کی خصوصی دعوت دی گئی ہے۔
افغان عبوری حکومت بھی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شریک ہے۔
یہ اجلاس افغانستان میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال کے تناظر میں طلب کیا گیا ہے۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/3emmuYR
0 comments: