
وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے روپے کو مصنوعی طریقے سے مضبوط رکھا اور اس کے نقصانات موجودہ حکومت کو بھگتنا پڑے۔
اسلام آباد میں دیگر وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخزانہ شوکت عزیز نے مسلم لیگ(ن) کے پری بجٹ سیمینار پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) نے آج جو کہنے کی کوشش کی ہے کہ ان کے دور میں معیشت 3.7 سے تجاوز کرکے 5.8 تھی حالانکہ یہ بحث طلب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چند لوگوں کا خیال ہے کہ 5.5 تھی ، چلیں 5.5 یا 5.8 گرو کی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت میں شرح گری اور منفی 5 فیصد ہوگئی۔
شوکت ترین نے کہا کہ اس کو انہوں نے پی ٹی آئی کی حکومت پر سوالیہ نشان بنایا اور کہا کہ یہ ان کی نااہل معاشی انتظامیہ کی وجہ سے ہوئی ہے، دیکھا جائے تو کیا وجہ تھی کہ معیشت کو جہاں انہوں نے 5.8 پر چھوڑی تھی تو گر کے منفی 5 ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ پہلے تو دیکھا جائے کہ ان کی معیشت کس بنیاد پر بہتر ہوئی، انہوں نے طلب قرضوں سے پیدا کی، اس میں سرمایہ کاری میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، سرمایے میں 2 یا ڈھائی فیصد اضافہ ہوا اور انہوں نے قرض لے کر بہتری دکھائی اورمعیشت کو ہیٹ اپ کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سب کو معلوم ہے کہ انہوں نے مصنوعی طریقے سے روپے کو مضبوط یا اوور ویلیو رکھا، اس سے 20 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ یہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ہم سے یہ غلطی ہوئی اور اس کو کون پورا کرتا، اس کے لیے ہمیں کہیں سے پیسے لینے تھے اور یہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے لیے اور انہوں نے سخت شرائط رکھیں۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے انہوں نے ہمیں 20 ارب ڈالر دینا ہے تو انہوں نے ٹیرف بڑھا دیا، ڈی ویلیویشن کی بات کی، انہوں نے کہا گیس کے چارجز بڑھا دو، اس ساری چیزوں سے انہوں نے مارکیٹ سے ڈیمانڈ نکالنا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب طلب نکلتی ہے معیشت نیچے چلی جاتی ہے، ڈار صاحب کو اس معیشت کا پتہ نہ ہو لیکن دنیا کے ماہرین معیشت کو معلوم ہے کہ آئی ایم ایف آتا ہے تو گروتھ نکالتا ہے۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو بھی پتا ہے کہ ڈار صاحب نے معیشت کے ساتھ کیا حشر کیا، وہ جو چھوڑ کر گئے تو پی ٹی آئی کی حکومت نے بھگتا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو آپ کریڈٹ دیں کہ انہوں نے اس کو لیا اور چیزوں کو بہتر کرنے کی کوشش کی، سونے پہ سہاگا کووڈ ہوگیا، اس کے باوجود اس چیز کو سنبھالا، کووڈ کو جس طرح اس حکومت نے سنبھالا کسی اور حکومت خاص کر اس خطے میں کسی نے نہیں سنبھالا۔
شوکت ترین نے کہا کہ اب معیشت میں 4 فیصد کی شرح نمو ہے اور یہ شرح اوپر جارہی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں یہ بہتری اگلے سال 5 اور اسے اگلے سال 6 فیصد پر جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے معیشت کی بہتری کے لیے مختصر، درمیانے اور طویل مدت کے منصوبے بنائے ہیں، موجودہ حکومت کی سوچ مثبت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق حکومت نے کیپسٹی پے منٹ کے مہنگے معاہدے کیے اور اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی، معیشت کو استحکام سے ترقی کی جانب لے جائیں گے، ٹیکس محصولات میں ہر سال 20 فیصد اضافہ کیا جائے گا اور اگلے دو سال میں ٹیکس وصولی کو 7 کھرب سے اوپر لے جائیں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم ٹیکس پر ٹیکس نہیں لگائیں گے بلکہ ٹیکس کا دائرہ کار بڑھایا جائے گا، ایف بی آر کی طرف سے لوگوں کو خوفزدہ کرنے کا سلسلہ بند کرایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں 38 فیصد کا اضافہ کیا جائے گا، بجٹ میں زراعت، برآمدی شعبے، آئی ٹی اور صنعت کو سہولیات دی جائیں گی، خسارے کے شکار سرکاری اداروں کی نجکاری کا عمل شروع کیا جائے گا، سرکاری اداروں کی تنظیم نو اور نجکاری کا عمل شروع کرینگے جبکہ 4 سے 6 ملین افراد کو گھر، قرضے، صحت کارڈ اور ہر خاندان کے ایک فرد کو فنی تعلیم فراہم کی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ2022 اور 2023 میں جو نمو ہو گی وہ پائیدار اور زیادہ ہو گی اور سب کے لیے ہو گی۔
ایک سوال پر شوکت ترین نے کہا کہ رواں مالی سال کے دوران ٹیکس وصولی کا 47 ہزار ارب روپے کا ہدف پورا کیا جائے گا اور اگلے سال ہمارا ہدف 5.8 کھرب روپے ہو گا، ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ریٹیل اور دیگر صوبوں تک ٹیکس کا دائرہ بڑھائیں گے، ہمارا مقصد نچلے طبقے کو سہولیات فراہم کرنا ہے تاکہ فلاحی ریاست قائم ہو۔
انہوں نے کہا کہ ٹیرف کمیشن اور ڈیبٹ کمیشن کی رپورٹ ابھی موصول نہیں ہوئی، رپورٹ آئی تو سامنے لائیں گے، آئی ایم ایف کو بتا دیا ہے کہ ٹیرف بڑھا کر غریبوں پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتے، ہم اس کا متبادل دیں گے، وہ گردشی قرضے میں اضافہ روکنا چاہتے ہیں، ہم ایسے اقدامات کریں گے کہ یہ نہ بڑھے۔
ایک اور سوال پرانہوں نے کہا کہ جب معیشت کی گروتھ رک جائے اور کووڈ کی وجہ سے لاک ڈاؤن کرنا پڑے تو غربت تو بڑھتی ہے لیکن حکومت نے عوام کو ریلیف فراہم کیا ہے، غربت کا خاتمہ کیا جائے گا اور اگلے دو تین سال میں فرق واضح نظر آئے گا۔
شوکت ترین نے کہا کہ ڈالر 154 سے 155 روپے پر اب مستحکم ہے، آئی ایم ایف نے ڈسکاؤنٹ ریٹ 13 فیصد سے بڑھا کر ہمارے ساتھ زیادتی کی ہے لیکن انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے قرضہ لینا ہے تو یہ کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی ختم کر دی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے دور میں بجلی کا ٹیرف نہیں بڑھایا اور یہ بڑا گردشی قرضہ چھوڑ گئے، اس کے علاوہ گندم کا تمام ذخیرہ بھی ختم کر دیا جس کی وجہ سے ہمیں گندم درآمد کرنا پڑی، موجودہ حکومت زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے جس کے بعد ہم درآمد کے بجائے برآمد کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/3pgrUsI
0 comments: