
آپ نے سوچا ہے کہ اس کچرے میں موجود پلاسٹک کی اشیاء کا جلنا ماحول کو کس قدر زہر آلود کر سکتاہے۔المیہ تو یہ ہے کہ ان تمام باتوں کا علم رکھتے ہوئے بھی ہم پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال ترک نہیں کر پاتے کیونکہ یہ ہماری طرز زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ہمارے گھروں میں کتنے ہی ایسے پلاسٹک کی تھیلیوں کے انبار ہوں گے جنیں ہم کار آمد جان کر خوب سنبھال کررکھتے ہیں اور بوقت ضرورت انہیں استعمال میں لانے کے بعد بنا اس بات کی پر واہ کئے کہ یہ آلودگی کا باعث ہیں کوڑے کرکٹ کے ساتھ پھینک دیتے ہیں۔
ذراعت اور باغبانی کے شعبے سے منسلک سماجی شخصیت توفیق پا شا کا کہنا ہے کہ”ایک اندازے کے مطابق ہم ایک دن میں12سے15ہزار ٹن کچرا پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں اور آنے والے دنوں میں یہ تعداد20سے30ہزار تک جا سکتی ہے ۔دن بدن بڑھتی ہوئی اس تعداد پر قابو پانے کا واحد حل ہمارا طرز زندگی میں بدلاؤ لانا ہے۔ہم میں سے اکثر لوگ کچرا پھینکنے سے قبل اسے چھانٹنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔
میں نے اپنے گھر میں اس بات کو یقینی بنانے کی بھر پور کوشش کی ہے کہ کچرا پھینکنے سے قبل چھانٹا جائے۔کھانے پینے کی باقیات باغ کی کھاد کے لئے استعمال کی جائے جبکہ پیپر،پلاسٹک‘کانچ اور ٹن میں سے اسی کے حساب سے ری سائیکل ہونے والی اشیاء علیحدہ کرلی جائیں۔ساتھ ہی بیٹری ،انرجی سیور اور پریشر بوتلیں بھی صحیح طریقے سے ضائع کی جائیں تاکہ وہ ماحول کے لئے خطرناک ثابت نہ ہوں۔
ایک گھریلو خاتون شائستہ نیلوفر نے بتایا کہ آج میں فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ میرے گھرمیں پلاسٹک کی تھیلیوں کا نام ونشان نہیں۔بلکہ اس کی جگہ ہم کپڑے کے بنے تھیلے استعمال کرتے ہیں۔کھانا محفوظ رکھنے کے لئے بھی ہم شہد کی مکھیوں کے موم سے بنےWrapsاستعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔یہاں تک کہ اب میں پلاسٹک کے کنٹینر خریدنے سے بھی گریز کرتی ہوں۔
اس بات میں کوئی دورائے نہیں کہ ہمارے اطراف میں موجود کچرے کے ڈھیر میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے تاہم ہماری نئی نسل میں اس چیلنج سے مقابلہ کرنے کی سوچ کا اجاگر ہونا خاصی خوش آئند بات ہے ۔تجارت اور خرید وفروخت کے ضمن میں ماحول دوست طریقہ کار اور نظریات متعارف کروائے جارہے ہیں۔
پاکستان میں Code Greenکے نام سے ماحول دوست اشیاء کا آن لائن بزنس کرنے والی خاتون ایمان رنگون والا بھی اس نظرئیے کی حامی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ چیزوں کے ضیائع کے ہمیشہ سے خلاف رہی ہیں۔خواہ وہ کھاناہو،پانی ہو،بجلی یا کاغذ۔رنگون والا کی ماحول دوست کا وشیں یہیں ختم نہیں ہوتیں انہوں نے اس نظرئیے کے فروغ کے لئے مزید تحقیق کی اور ایسے لوگوں کی تلاش جاری رکھی جو ماحول دوست اشیاء کے استعمال اور فروخت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ میں چاہتی تھی ماحول دوست اشیاء تک رسائی صرف میرے لئے ہی نہیں بلکہ شہر بھر کے وہ تمام لوگ جو اس مہم کے لئے سنجیدہ ہیں،ان تک ممکن بنائی جائے۔
اسی سوچ کے نتیجے میں Code Greenعمل میں آیا۔ اس وقت ہمارے ساتھ کئی ماحول دوست اشیاء فروخت کے لئے موجود ہیں جن میں امریکی محکمہ ذراعت USDAسے سند یافتہ شیمپو بارز،چہرے اور جسم کے لئے صابن ،لوشن بارز،ڈیوڈرینٹ ،لپ بامز وغیرہ شامل ہیں۔یہ تمام اشیاء نامیاتی اجزاء سے تیار کی گئی ہیں اور ان کی پیکیجنگ میں بھی پلاسٹک کے استعمال سے گریز کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ان کے پاس ایسی بھی کئی اشیاء ہیں جوBiodegradableہیں۔Biodegradableان اشیاء کو کہا جاتاہے جو جراثیم اور دیگر جانداحیاتیات کی مدد سے تحلیل ہو کر ماحولیاتی آلودگی کا باعث نہیں بنتیں۔Code Greenکی ان اشیاء میں بیمبوٹوتھ برش،کانچ/شیشے کے اسٹرا،پیپر،Washi(سجاوٹ کے لئے استعمال کئے جانے والے جاپانی طرز کے ٹیپ)ٹیپ،دوبارہ استعمال کے قابل نامیاتی کاٹن سینیٹری نپکن،دوبارہ استعمال کے قابل کھانا محفوظ رکھنے والے موم کے بنے Wraps،کپڑے دھونے کے لئے قدرتی اجزاء سے بنا سوڈا،اسٹیل کے اسٹرا،کاشتکاری کی کٹس،کٹلری اور شاپنگ بیگز شامل ہیں۔
آسٹریلوی نژاد پاکستانی لائف اسٹائل بلا گر شہزین رحمن جنہیںDesi Wonder Womenکے طور پر بھی جانا جاتاہے اس مہم میں پیش پیش ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس کے فروغ کے لئے بھر پور سعی کررہی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ میری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس مہم کا حصہ بنیں جس کے لئے ہم اسے منفرد اور دلچسپ بنانے پر جتے ہوئے ہیں اور آہستہ آہستہ ہمیں اس کا مثبت ردعمل بھی مل رہا ہے۔
پلاسٹک سے چھٹکارا حاصل کرنے اور صحت بخش ماحول کی تشکیل کے لئے تو فیق پاشا نے اپنی تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ”پلاسٹک کے بنے تھیلے اور بوتلیں پیکیجنگ اور دیگرFossilایندھنوں سے پیدا ہونے والی آلودگی کی روک تھام کے لئے تمام بڑے برانڈز کو بھی اپنے طور پر مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔اگر حل نکالنے کی ٹھان لی جائے تو ہر شے کا کوئی نہ کوئی بہتر متبادل نکالا جا سکتاہے۔
مشروبات کے کینز کو آپس میں جوڑے رکھنے کے لئے استعمال ہونے والےSix-Packs Ringsکے استعمال پر دنیا کے کئی ممالک میں پابندی ہے۔انہوں نے پلاسٹک کے استعمال سے بچنے کے لئے کینز کو آپس میں چپکانا شروع کر دیا۔اسی طرح پلاسٹک پیکیجنگ سے بچنے کے لئے ایسے ہی کئی سہل متبادل طریقے اپنائے جاسکتے ہیں ضرورت ہے تو بس اس جانب دھیان دینے کی۔
بڑے بڑے ملبوسات کے برانڈز اور کھانے پینے کے برانڈز بھی اس مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔
پھر چاہے وہ SapphireکےBiodegradableشاپنگ بیگز ہوں یا کسی ہوٹل میں موجود Biodegradableکٹلری ۔رنگون والا نے بتایا کہ وہ اپنے آرڈرز کا غذ یا اخبار میں پیک کرکے ڈیلیور کرتی ہیں۔ تو فیق پاشا کے مطابق”ہمیں کاربن فٹ پر نٹس یعنی ایسی سر گر میاں کم سے کم کرنی چاہئیں جس کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج ہوتا کہ جو نقصان اس کے سبب ہمارے اطراف کے ماحول میں ہو چکا ہے اس میں مزید بگاڑ پیدا ہونے سے روکا جا سکے۔
اس کے لئے ضروری ہے کہ مختصر فاصلے کے لئے گاڑیوں کے بجائے پیدل چلنے کو ترجیح دیں،پانی اور بجلی ضائع کرنے سے گریز کریں اور پلاسٹک کا استعمال ہر انداز سے ختم کر دیں۔“
حال ہی میں پر حکومت پاکستان کی جانب سے پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جوکہ خوش آئند اقدام ہے ۔تبدیلی چند لمحوں یا مہینوں میں نہیں لائی جا سکتی البتہ مسلسل اور مستقل مزاجی کے ساتھ مثبت اقدامات کا حصہ بن کر ہم بھی اپنے ماحول اور وطن عزیز کو آلودگی سے پاک بنا کر اپنی آنے والی نسلوں کو صحت مند ماحول فراہم کر سکتے ہیں۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2OInJpb
0 comments: