Tuesday, October 15, 2019

اگر مولانا فضل الرحمان ہوگئے گرفتار تو آزادی مارچ کی قیادت کون کرے گا؟؟؟َ پسِ پردہ کہانی آگئی

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اسفندیار ولی خان نے کہا ہے اسلام آباد مارچ سے پہلے اگر جے یو آئی کے قائدین کو گرفتار کیا جاتا ہے تو آزادی مارچ کی قیادت پھر اے این پی کرے گی۔

عوامی نیشنل پارٹی کسی صورت جمعیت علماء اسلام کو اکیلے نہیں چھوڑے گی۔ یہ اعلانات اسفندیار ولی خان نے ولی باغ چارسدہ میں جمعیت علما اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان سے خصوصی ملاقات کے بعد پریس بریفننگ کرتے ہوئے کیے۔ اسفندیار ولی خان نے کہا آزادی مارچ کے حوالے سے اے این پی کا موقف بہت واضح ہے،اے این پی دو مرحلوں میں مارچ کا حصہ بنے گی،پہلے مرحلے میں اگر سیاسی کارکنان پر تشدد ہوتا ہے تو صوبہ بھر میں اے این پی کارکنان نکلیں گے اور اے این پی صوبائی حکومت سے سیاسی کارکنان پر ہونیوالے تشدد کا حساب لے گی اے این پی کیلئے دوسرا مرحلہ مارچ میں شمو لیت کا یہ ہے اگر مولانا صاحب اسلام آباد پہنچتے ہیں تو پھر اے این پی کارکنان میری قیادت میں مارچ کا بھرپور حصہ بنیں گے۔

اسفندیار ولی خان نے کہا اگر حکومت کا ارادہ یہ ہے کہ سیاسی کارکنان مارچ کا حصہ نہ بنیں یا ایک سیاسی پارٹی حکومت مخالف مارچ نہ کرے تو وہ کسی کو ایک جمہوری ملک میں قابل قبول نہیں ہوسکتا، جو الفاظ سیاسی کارکنان کے حوالے سے صوبے کا وزیراعلیٰ اور وزیراطلاعات استعمال کررہے ہیں وہ سیاسی الفاظ نہیں، خدا کرے حکومت کو عقل نصیب ہو وہ سیاسی کارکنان کیخلاف ری ایکشن نہ کرے، اگر ری ایکشن نہیں ہوتا تو ایک سیاسی و جمہوری جدوجہد آگے بڑھے گی اور اگر ری ایکشن ہوتا ہے تو اس کا ردعمل ضرور ہوگا اور ری ایکشن کے نتیجے میں جو ردعمل آئیگا وہ ایسا ہوگا پھر وہ کنٹرول کرنا احتجاج میں شامل سیاسی قائدین کے بس میں بھی نہیں ہوگا۔

اے این پی لاٹھی چارج،آنسو گیس اور جیل کی عادی ہے،اگر حکومت ہمیں اس نہج پر لا کر کھڑا کر دے تو یا بسم اللہ،ہم نے کسی صورت جے یو آئی کو اکیلے نہیں چھوڑنا، ایک خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے 27 اکتوبر سے پہلے جے یو آئی کے قائدین کو گرفتاری کی باتیں ہورہی ہے،اگر جے یو آئی کی قیادت کو گرفتار کیا جاتا ہے تو پھر احتجاج کی قیادت اے این پی کریگی۔



from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2ONwKxr

0 comments:

Popular Posts Khyber Times