غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق 4 روزہ لویہ جرگہ میں افغانستان بھر سے تقریباً 3 ہزار 200 قبائلی عمائدین، مذہبی رہنماؤں اور سیاست دانوں نے طالبان سے امن کے امور پر بحث کی۔
جرگے میں شرکت کرنے والی ایک کمیٹی کے رکن عبدالحنان کا کہنا تھا کہ ’ہم یہاں پر دونوں اطراف سے جنگ بندی پر زور دینے کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں، جنگ کا اختتام صرف اس وقت ہو سکتا ہے جب دونوں جانب سے لڑائی کو روکا جائے اور مستقل امن کے لیے معاہدوں پر دستخط ہوں‘۔
اسمبلی کی جانب سے حتمی تجاویز تو آئندہ روز آئیں گی، تاہم زیادہ تر اراکین نے کابل اور طالبان کے درمیان بات چیت پر زور دیا۔
یہ جرگہ نومنتخب پارلیمنٹ کے افتتاحی سیشن کے 3 روز بعد منعقد کیا گیا، لویہ جرگہ پشتو میں ’گرینڈ اسمبلی‘ کو کہتے ہیں، جس کا اجلاس روایتی طور پر افغان عمائدین پر مشتمل ہوتا ہے۔
اس حوالے سے گزشتہ جرگہ 2013 میں اس وقت منعقد ہوا تھا جب افغان حکام نے ایک سیکیورٹی معاہدے کی توثیق کی تھی، جس کے تحت 2014 میں انخلا کے منصوبے سے آگے جاتے ہوئے امریکی فوجیوں کو افغانستان میں رکنے کی اجازت دی گئی تھی۔
واضح رہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان پر طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کو پناہ دینے کے الزام کے باعث دونوں پڑوسیوں میں بگڑتے تعلقات کے بعد اگست 2007 میں پہلا افغان-پاکستان مشترکہ جرگہ کابل میں منعقد ہوا تھا۔
اس سے قبل 2003 میں سابق افغان صدر صبغت اللہ مجددی کی سربراہی میں ہونے والے لویہ جرگہ میں طالبان کے دور کے بعد افغانستان کے نئے آئین کی منظوری دی گئی تھی۔
عام طور پر یہ اجلاس سیاسی شخصیات، مذہبی اسکالرز، اساتذہ، کارکنان اور کمیونٹی لیڈرز پر مشتمل ہوتے ہیں، اس میں نمائندے چھوٹے گروپس کی صورت میں مختلف امور کو دیکھتے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ لویہ جرگہ ایک ایسے وقت میں منعقد کیا جارہا ہے جب امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں۔
ان مذاکرات میں دونوں فریقین کی جانب سے افغانستان سے فوجیوں کی ممکنہ واپسی پر تبادلہ خیال ہوا، جبکہ اس کے بدلے طالبان کی جانب سے مختلف وعدوں اور جنگ بندی پر بھی بات چیت کی گئی ہے۔
تاہم اس مذاکراتی عمل میں اب تک افغان صدر اشرف غنی کی حکومت باہر رہی ہے، کیونکہ طالبان افغانستان کی موجودہ حکومت کو امریکی کٹھ پتلی کہتے ہیں۔
اشرف غنی کی حکومت امن مذاکرات میں اثر ڈالنے کے لیے کوششوں میں مصروف ہے اور اس جرگے کا مقصد کسی معاہدے کے لیے کابل کی سرخ لائن کا تعین کرنا ہے، جس میں آئین کا تسلسل اور خواتین کے حقوق، میڈیا اور اظہار رائے کا تحفظ بھی شامل ہے۔
افغان صدر کی جانب سے طالبان کو اس جرگے میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، تاہم انہوں نے اس سے انکار کردیا تھا۔
طالبان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ لویہ جرگہ میں کوئی فیصلہ یا قرارداد ’اس سرزمین کے وفادار اور حقیقی بیٹوں کو کبھی قابل قبول نہیں ہوگی‘۔
ماضی میں طالبان کی جانب سے لویہ جرگہ خیمے پر راکٹ فائر کیے گئے تھے جس کو دیکھتے ہوئے رواں سال کے ایونٹ کے لیے سخت سیکیورٹی آپریشن کے تحت کابل کو بند کردیا گیا ہے۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں http://bit.ly/2ZRxkNR
0 comments: