Saturday, April 6, 2019

بانجھ پن کے مسائل اور انکا حل

بانجھ پن کے مسائل زندگی کا اہم پہلو
ایک محتاط اندازے کے مطابق ساری دنیا میں تقریباً 15فی صد جوڑے ایسے ہیں ،جو ایک برس کے عرصے میں والدین نہیں بن پاتے ،جب کہ 25 سے 30 فی صد شادی شدہ جوڑے ایسے ہیں ،جو بانجھ پن (INFERTILITY) کے مسائل سے دو چار ہیں ۔کچھ ایسی ہی صورت حال سے پاکستان کے لوگ بھی دو چار ہیں۔

یہ مسئلہ صرف خواتین کا نہیں ہے،بلکہ اس میں کوئی ایک یا پھر دونوں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

40-30 فی صد مرد بانجھ پن کی وجہ ہوتے ہیں اور70-60 فی صد اس کی وجہ خواتین ہوتی ہیں ،جب کہ 10سے20 فی صد میں دونوں شامل ہوتے ہیں ۔

انجھ پن لاعلاج نہیں ہے ،اگر وجہ دریافت ہوجائے تو علاج ممکن ہے۔

شادی کے بعد ایک برس تک اگر حمل قرار نہیں پاتا تو یہ بات تشویش ناک ہو جاتی ہے ۔اس سلسلے میں میاں بیوی کو معالج سے مشورہ لینا چاہیے ۔


اگر خاتون کی عمر 30برس ہے تو یہ عمر بچے کی پیدایش کے لیے بہترین ہے۔


خواتین کے بیضہ دان میں قدرتی طور پر اچھی تعداد میں تولیدی بیضے ہوتے ہیں ،جو بڑھتے تو نہیں البتہ عمر بڑھنے سے ان کی تعداد گھٹنا شروع ہو جاتی ہے ۔ایک ایسا بچہ جو ماں کے پیٹ میں 20ہفتوں سے ہے ،

اس میں 50 سے70 لاکھ بیضے ہوتے ہیں ۔یہ بیضوں کی انتہائی تعداد ہے ،جو کسی ماں میں ہوتی ہے ۔

اس مرحلے پر بیضے ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔

پھر بچے کی پیدایش پر ان کی تعداد 10سے20 لاکھ رہ جاتی ہے۔

جب خاتون کی عمر 40برس ہو جاتی ہے تو صرف 3فی صد بیضے باقی بچتے ہیں اور51 برس کی عمر میں جب کسی خاتون کا سن یاس شروع ہو تا ہے تو ان بیضوں کی تعداد صرف 100 رہ جاتی ہے ۔یہ بیضے ہر ماہ قدرتی طور پر ختم ہوتے رہتے ہیں ۔بیضے ختم ہونے کا دورانیہ کم یا زیادہ ہو سکتا ہے ۔

کسی کے بیضے جلد ختم ہو جاتے ہیں اور کسی کے دیر میں ۔

چناں چہ 25 برس کی عمر میں اگر کسی خاتون کو بانجھ پن کے مسئلے کا سامنا ہوتو اسے چاہیے کہ وہ کسی ماہر معالج سے رجوع کرے۔

گر وہ عام معالجین کے پاس جاتی ہے تو اپنا وقت ضائع کرتی ہے اور40 برس کی عمر کو پہنچنے کے بعد اس کے تولیدی یضے بڑی تعداد میں ضائع ہو جاتے ہیں اور ان کا تولیدی معیار بھی گھٹ جاتا ہے ، جس کے نتیجے میں بچہ نقائص کے ساتھ پیدا ہوتا ہے یا پھر اسقاطِ حمل ہو جاتا ہے ۔



from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں http://bit.ly/2WMJUvq

Related Posts:

0 comments:

Popular Posts Khyber Times