
امریکی خبررساں ادارے ’ اے پی‘ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے سربراہی ملاقات کی ناکامی کا ذمہ دار شمالی کوریا کو قرار دیا،کم جونگ اُن نے جوہری ہتھیاروں کا مکمل استعمال ترک کرنے پر آمادہ ہوئے بغیر امریکا کی جانب سے پیانگ یانگ پر عائد تمام پابندیاں ہٹائے جانے پر اصرار کیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے طے شدہ وقت سے قبل سربراہی اجلاس ختم ہونے کے بعد الوداعی پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ بعض اوقات آپ کو چلنا پڑتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ایک تجویز کردہ معاہدے پر دستخط ہونے تھے جس میں جلد بازی کے بجائے میں درست معاہدہ کرنا بہتر سمجھتا ہوں۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’ ہم کچھ خاص کرنے کی پوزیشن میں ہیں‘۔
گزشتہ روز ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کی ملاقات کے بعد دونوں قومیں ایک معاہدے کے لیے پُرامید تھیں لیکن دونوں سربراہان کی گاڑیاں ملاقات کے چند منٹ بعد ہی ہنوئی سربراہی ملاقات کے مقام صوفی ٹیل لیجنڈ میٹروپول ہوٹل سے باہر چلی گئی تھیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن نے ملاقات کے بعد ظہرانے اور دونوں ممالک کے درمیان معاہدے کی تقریب میں بھی شرکت کرنی تھی تاہم وہ بھی منسوخ ہوگئی۔
مزید برآں امریکی صدر کی الوداعی کانفرنس بھی جلد کی جس کے بعد وہ امریکا روانگی کے طے شدہ وقت سے 2 گھنٹے سے زائد دورانیے سے قبل ہی واشنگٹن سے روانہ ہوگئے۔
امریکی صدر اور شمالی کوریا کے سربراہان کے درمیان مذاکرات ایک ایسے وقت میں ختم ہوئے جب دونوں سربراہان اپنے تعلقات میں بہتری سے ایک معاہدے کے فاصلے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس امید کو ختم کردیا کہ شمالی کوریا کے سربراہ سے مذاکرات کے نتیجے میں پیانگ یانگ کے جوہری پروگرام کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات سے متعلق معاہدہ ہوگا۔
خیال رہے کہ پیانگ یانگ اپنے جوہری پروگرام کو خلیج نما کوریا کی سیکیورٹی کی مضبوط ترین ضمانت کے طور پر دیکھتا ہے۔
اس حوالے سے کم جونگ اُن سے جب پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ جوہری ہتھیاروں کی تخفیف کے لیے تیار ہیں جس پر انہوں نے کہا کہ ’ اگر میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تو میں اس وقت یہاں نہیں ہوتا‘۔
امریکی صدر نے شمالی کوریا پر دباؤ ڈالنے کے بجائے اعلان کیا کہ ایک فوری معاہدے کے بجائے وہ ایک ’ درست معاہدے‘ کے خواہش مند ہیں۔
خیال رہے کہ رواں ہفتے کانگریشنل بیان ٹرمپ کے سابق وکیل مائیکل کوہن نے انہیں ’ نسل پرست‘ اور ’ دھوکے باز‘ قرارد دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ وکی لیکس ایسی ای میلز جاری کرسکتا جس سے 2016 میں ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچتا۔
شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا کی جانب سے بغیر کسی معاہدے کے سربراہی اجلاس ختم ہونے پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا جبکہ کم جونگ اُن اجلاس سے واپس آنے کے بعد ہنوئی میں واقع ہوٹل کے کمرے میں بند ہوگئے تھے۔
خیال رہے کہ شمالی کوریا کے سربراہ نے یکم مارچ کو ویتنام کے رہنماؤں سے ملاقات طے ہے جس کے بعد وہ 2 مارچ کو خصوصی ٹرین کے طویل سفر سے چین سے ہوتے ہوئے شمالی کوریا پہنچیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات پر اصرار کیا کہ کم جونگ اُن کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں لیکن وہ شمالی کوریا کے سربراہ سے تیسری ملاقات کا عہد نہیں کررہے۔ امریکی صدر نے کہا کہ کم جونگ سے اگلی ملاقات ’ ایک طویل عرصے تک ممکن نہیں ہوسکے‘۔
تاہم ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی اسٹیٹ سیکریٹری مائیک پومپیو نے کہا کہ ہنوئی میں اہم پیش رفت ہوئی۔
امریکی صدر نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ بنیادی طور پر وہ (کم جونگ) چاہتے ہیں کہ تمام پابندیاں ہٹائی جائیں اور ہم ایسا نہیں کرسکتے تھے۔
امریکی اسٹیٹ سیکریٹری نے کہا کم جونگ، شمالی کوریا کی مرکزی جوہری سینٹر یونگ بیون نیوکلیئر سائینٹیفک ریسرچ سینٹر بند کرنے پر آمادہ تھے اگر تمام پابندیاں ختم کردی جاتیں۔
مائیک پومپیو نے کہا کہ ان کے پاس میزائل، وار ہیڈز اور ہتھیاری ساز و سامان باقی رہتا ،انہوں نے مزید کہا کہ شمالی کوریا میں جوہری ایندھن کے مشتبہ خفیہ پیداواری مقامات بھی ہیں‘۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ شمالی کوریا کے ساتھ کشیدگی کے خاتمے کا فیصلہ بعد میں کریں گے۔
گزشتہ روز دونوں ممالک کے سربراہان نے 30 منٹ کے مختصر دورانیے پر مشتمل نجی ملاقات میں بات چیت کےبعد صحافیوں سے گفتگو کی تھی۔
بعد ازاں ہنوئی میں غیر رسمی عشائیے کے آغاز پر ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ ان پرسکون اور بے تکلف نظر آئے تھے۔
صحافیوں سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے شمالی کوریا کے سربراہ کی تعریف کرتے ہوئے انہیں عظیم رہنما قرار دیا اور کہا تھا کہ ’چیئرمین کم کے ساتھ ویتنام میں ہونا ایک اعزاز ہے‘۔
امریکی صدر نے کہا تھا کہ وہ اس ملاقات کو ایک کامیاب سربراہی اجلاس کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جس پر کم جونگ ان نے کہا تھا کہ ’ہم تمام رکاوٹوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے اور آج ہم یہاں موجود ہیں‘۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس 12 جون کو سنگاپور کے ایک شاندار ہوٹل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ ان نے ملاقات کی تھی۔
اس ملاقات کے بعد شمالی کوریا کے 70ویں یوم آزادی کے موقع پر جوہری تنصیبات کی نمائش سے گریز کیا گیا تھا۔
تاہم شمالی کوریا کی جانب سے جوہری اور بیلسٹک میزائل کی تخفیف کے کے چند واضح اقدامات کے بعد امریکی صدر کو تنقید کا سامنا تھا۔
بعد ازاں گزشتہ برس دسمبر میں شمالی کوریا نے امریکی کی جانب سے عائد کی گئی حالیہ پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ واشنگٹن کے اقدامات سے جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2tIeFoG
0 comments: