Tuesday, March 5, 2019

بلوچستان کی بارشیں کسانوں کے لیے امید کی کرن

علی بخش کا کہنا ہے کہ اگر بارشیں نہ ہوں تو پھر وہ قرضہ لے کر گزارہ کرتے ہیں
صوبہ بلوچستان میں حالیہ بارشوں کے بعد جہاں سیلابی ریلوں سے نقصان ہوا ہے وہیں مقامی کسانوں کے لیے یہ امید کی نئی کرن بن کر سامنے آئی ہیں۔ گذشتہ کئی برسوں سے خشک سالی کا شکار اس صوبے میں کئی علاقوں میں ریتیلی اور پتھریلی زمینوں میں بیج لگائے جا رہے ہیں۔

مستونگ سے لے کر دالبندین تک سڑک کے دونوں اطراف سینکڑوں میل تک ویران زمین نظر آتی ہے لیکن اب کچھ مقامات پر کئی خاندان زمین میں ہل چلاتے یا پھر بیج پھینکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

نوشکی کے قریب بزرگ علی بخش بروہی سے ملاقات ہوئی، جو زمین میں زیرے اور مقامی گندم کا بیج پھینک رہے تھے جبکہ ان کے نوجوان بیٹے زمین کو ہموار کرنے کے لیے کانٹے دار جھاڑیوں کو زمین پر گھسیٹ رہے تھے۔

اس خاندان کا گزر بسر اسی بارانی زمین پر ہے تاہم بارشیں نہ ہونے سے وہ مالی تنگی کا شکار ہو گئے تھے۔ اس کاشت کے لیے انھوں نے 40 ہزار روپے کا مزید قرضہ لیا ہے۔

علی بخش کا کہنا ہے کہ اگر بارشیں نہ ہوں تو پھر ان کی زندگی مشکل ہوجاتی ہے اور وہ قرضہ لے کر گزارہ کرتے ہیں اور جب قرضہ ادا نہیں کرسکتے تو پھر قرض خواہوں سے چھپتے پھرتے ہیں۔

انھوں نے کہا: 'یہاں اگر کسی کی سرکاری ملازمت ہے تو اس کا گزارہ ہو جاتا ہے لیکن ان ملازمتوں پر صرف امیر لوگوں کے ہی بچے لگتے ہیں۔'

علی بخش کا کہنا ہے کہ ان کی نگاہیں بادلوں پر رہتی ہیں اور جب ان کے بند بارش کے پانی سے بھر جاتے ہیں اسی رات وہ گہری نیند سوتے ہیں کیونکہ اگر دو تین بار بارش ہو جائیں تو پھر فصلیں ٹھیک ہوتی ہیں ورنہ محنت اور سرمایہ سب کچھ ضائع ہوجاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'اگر زیرہ لگ گیا تو فی من 24 ہزار کا فروخت ہوگا۔'

بلوچستان کے کئی اضلاع میں حالیہ بارشوں کی وجہ سے سیلابی صورتحال کا سامنا ہے جبکہ اس سے قبل 33 اضلاع میں سے 20 اضلاع گذشتہ پانچ سالوں سے قحط سالی کا شکار تھے جن میں شورش زدہ علاقے آواران، تربت، پنجگور، خضدار، گودار سمیت چاغی اور واشک زیادہ متاثر ہوئے۔ اب ان میں سے کئی میں سیلابی صورتحال ہے۔

قحط سے شدید متاثرہ اضلاع میں ضلع چاغی بھی شامل تھا، جو صحرائی اور پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکے کے مقام راس کوہ سے چند کلومیٹر دور کھوتران کے علاقے میں قادر بخش اپنے خاندان کے ساتھ عارضی جھونپڑی میں رہتے ہیں۔

گھر کے اندر لکڑیوں پر کوئی سالن تیاری میں تھا جبکہ بچے سردی سے بچنے کے لیے چولھے کے گرد موجود تھے جن میں سے بعض نے خشک روٹی کے ٹکڑے ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے جنھیں چبا رہے تھے۔ گھر کے باہر قادر بخش ایک بوسیدہ لانگ کوٹ پہنے ہوئے اپنے دس سالہ پوتے کے انتظار میں تھے جو بکریاں اور بھیڑیں چرانے جنگل گیا تھا۔

قادر بخش نے دور نظر آنے والے پہاڑوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ وہاں کانیان کے علاقے میں رہتے تھے لیکن پانی کی عدم دستیابی کے باعث انھیں نقل مکانی کرنا پڑی۔ اس دوران ان کا سات سالہ نواسہ آلودہ پانی کے استعمال کی وجہ سے فوت ہوگیا۔

قادر بخش نے بتایا کہ ان کے پاس سو کے قریب بھیڑیں اور بکریاں تھیں جن میں سے صرف چھ بچیں۔ 'پہلے ہم چشمے میں کٹورا لگا کر پانی حاصل کرلیتے تھے لیکن پانی کی سطح بہت نیچے چلی گئی اور لوگ نقل مکانی کرگئے جبکہ حکومت کی جانب سے کوئی امداد نہیں ملی۔'

قحط سالی اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بلوچستان میں بچوں میں نیوٹریشن ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا تھا، نیشنل نیوٹریشن سیل کے سروے کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے 57 فیصد بچوں میں خون کی کمی ہے، قحط سالی سے شدید متاثرہ اضلاع میں نیوٹریشن سیل بنائے گئے ہیں۔

سیان دک اور ریکو دک جیسے معدنیات سے مالا مال ضلعے چاغی کے سرکاری ہسپتال میں ایک کمرے کو دو حصوں میں تقسیم کرکے نیوٹریشن سیل بنایا گیا ہے۔ جہاں بچوں کے وزن اور کمزور بازو کی پیمائش کی جاتی ہے ساتھ میں ہائی نیوٹریشن سپلیمینٹ فراہم کیا جاتا ہے۔

اس سینٹر کی سوشل موبلائزر لال پری نے بتایا کہ ’بارش نہیں ہوئی اس لیے فصل نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے ماں اور بچے کو خوراک نہیں مل سکی۔ ایسی مائیں ہیں جن کے گھر میں خوراک نہیں ملتی جو وہ اپنے بچے کو دے سکیں جس سے ماں اور بچہ دونوں کمزور ہو جاتے ہیں۔'

17 لاکھ مویشی متاثر
قحط سالی نے زراعت، مال مویشی اور پانی کے ذارئع کو شدید متاثر کیا تھا۔ بارشوں سے قبل کئی علاقوں میں مالی مویشی کی ہلاکتیں بھی ہوئیں اور ویرانے میں کئی علاقوں میں واضح طور پر ان کے ڈھانچے موجود تھے، بلوچستان حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 17 لاکھ مویشی متاثر ہوئے۔

دالبندین کی مویشی منڈی میں جسم پر کئی کلو اون اور بال لیے ہوئے بکریاں اور بھیڑیں موجود تھیں، سردی کے باعث اس صورت میں صحت مند نظر آرہی تھیں، داؤد خان یہاں اپنی بھیڑیں فروخت کرنے کے لیے موجود تھے۔

انھوں نے شکوہ کیا کہ جب وہ یہاں اپنی بھیڑ بکریوں کو لاتے ہیں تو لوگ انھیں ایک ایک ہزار رپے میں مانگتے ہیں جبکہ آٹے کی ایک بوری بھی تین ہزار رپے کی ملتی ہے۔

'آپ اندرون علاقے میں جائیں گے تو تیس تیس جانوروں کے ڈھانچے ملیں گے، اونٹ تو ختم ہی ہوگئے ہیں۔ ان بھیڑ بکریوں کے علاوہ ہمارے پاس ملازمت یا روزگار کا دوسرا کوئی ذریعہ نہیں۔'

بلوچستان میں قحط سالی ہو یا سیلاب و زلزلہ بین الاقوامی اداروں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، گذشتہ ماہ وزیر اعلیٰ جام کمال نے اقوام متحدہ کے بچوں اور خوراک کے اداروں کے حکام سے ملاقات کی تھی جس کے بعد ان اداروں نے اپنے پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ قحط سالی سے متاثرہ خاندانوں کے لیے 500 ملین مختص کیے لیکن چاغی ضلع میں کسی ایک شخص نے بھی تصدیق نہیں کی کہ انھیں حکومت کی امداد ملی ہے۔ پانچ سالہ قحط سالی کے دوران حال ہی میں جب صورتحال سنگین ہو گئی تو حکومت کی کوششیں نظر آئیں ۔

فی الوقت نوشکی، خضدار، لسبیلہ، آواران ، تربت اور بلیدہ وغیرہ میں سیلابی صورتحال ہے اور صوبائی حکومت نے ہنگامی حالات کا اعلان کیا ہے، نصف آبادی پہلے قحط سالی سے پریشان تھی اور اب نصف آبادی سیلابی صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔

صوبائی وزیر محکمۂ آفات ضیا لانگو تسلیم کرتے ہیں کہ 'قحط سالی میں جتنا کام ہونا چاہیے تھا اتنا نہیں ہوا ہے لیکن اس میں صرف ماضی کی حکومتوں کی غفلت نہیں ہے اپوزیشن اور عوامی نمائندگان میں سے کسی نے اس کو اتنا اجاگر نہیں کیا تھا ہمارے یہاں امن و امان کا مسئلہ زیادہ اہم رہا ہے جو رہنا بھی چاہیے تھا۔'

یاد رہے کہ گذشتہ حکومت میں بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام رہا جس میں تین وزرائے اعلیٰ تبدیل ہوئے، صوبائی وزیر محکمۂ آفات ضیا لانگو کا کہنا ہے کہ مسائل کو حل کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کی گئی بلکہ مسائل بڑھانے کی زیادہ کوشش کی گئی ہے۔



from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2Ey4et8

Related Posts:

0 comments:

Popular Posts Khyber Times