
موجودہ حالت میں کئی ایکڑ پر محیط اس تاریخی ورثہ میں کم و بیش 20 سے زائد یادگاریں ہیں۔ جو لگ بھگ گذشتہ پانچ سو برس میں اس کو مسکن بنانے والے بادشاہوں اور ان کے ادوار کی نشانیاں ہیں۔ ہر ایک کا طرزِ تعمیر منفرد ہے۔
تاہم ان کی کوئی باقاعدہ ترتیب نظر نہیں آتی اور یہ امر الجھن کا سبب بنتا ہے۔ قلعے کے مرکزی دراوزے سے گزرتے ہی ذہن پر سوالوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے۔ ایسے میں وہ نقطہ جہاں سے تاریخ کی اس کتاب کو شروع کیا جائے واضح نہیں ہے۔
اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اس کتابِ ماضی کے کئی اوراق غائب ہیں۔
والڈ سٹی اتھارٹی لاہور کے ڈائریکٹر کنزرویشن نجم الثاقب اور ان کے ساتھیوں نے حال ہی میں ایسا ایک ورق دریافت کیا ہے جو منوں مٹی تلے دفن تھا۔
یہ ایک حمام ہے۔ قلعہ کے دو مرکزی دروازوں کے عین بیچ سبزہ زاروں کے درمیان کھڑی دیوانِ عام کی شاندار عمارت کے بائیں پہلو سے گزرتے ہوئے آپ یہاں پہنچتے ہیں۔ اس جانب زیادہ لوگوں کا گزر نہیں ہوتا۔ یہ جہانگیری اور شاہ جہاں کے چو گوشوں کا عقب ہے۔
نجم الثاقب کا ماننا ہے کہ یہ حمام اکبری دور کا ہے۔ جس جگہ سے یہ دریافت ہوا وہ اکبری محل کا علاقہ ہے۔
اس کی رسمی تصدیق کے لیے تاہم وہ کاربن ڈیٹنگ یعنی اس میں استعمال ہونے والے پتھروں کی مدد سے اس کی عمر جاننے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اگر ایسا ہے تو نجم الثاقب اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اکبری گیٹ کے بعد یہ حمام اکبر کے دور کے شاہی قلعے کی پہلی یادگار یا آثارِ قدیمہ ہو سکتا ہے۔ تاحال شاہی قلعہ میں زیادہ تر یادگاریں تین مغل بادشاہوں جہانگیر، شاہ جہاں اور اورنگزیب عالمگیر سے منسوب ہیں۔
تاہم موجودہ شاہی قلعے کی بنیاد تاریخ دان مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر سے ملاتے ہیں جو اس نے سولھویں صدی کے وسط میں رکھی تھی جس میں بعد میں آنے والے مغل بادشاہ اضافہ کرتے رہے۔
تاہم شاہی قلعہ کا وہ حصہ جو اکبر سے منسوب کیا جاتا ہے اس پر ان دنوں ایک کالونی آباد ہے جس کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں۔ یہ غالباً محکمہ آثارِ قدیمہ کے ملازمین یا قلعہ کی دیکھ بھال کرنے والوں کی آبادی ہے۔
یہ حمام زیرِ زمین تھا۔ تو کیا زیرِ زمین یہ واحد عمارت ہے؟ حمام کے آخری حصے میں ایک زیرِ زمین سرنگ بھی ملی ہے۔ سرنگ جہانگیری حصے کی ایک عمارت کے عقب سے زیرِ زمین داخل ہوتی نظر آتی ہے۔ مگر یہ کہاں جاتی ہے، تاحال معلوم نہیں۔
نجم الثاقب کے مطابق بظاہر جس جانب سرنگ جا رہی ہے اس طرف یقیناً کوئی تہہ خانہ وغیرہ ہو گا۔
اگر ایسا تھا تو اس تہہ خانے سے کیا تاریخ جڑی ہے اور اس تک رسائی کہاں سے ہو گی، ایسی معلومات کے توسط سے از خود حمام کی تاریخ جاننے میں مدد ملے گی۔
اور پھر شاہی قلعہ کی دیگر یادگاروں کی طرح یہ حمام بھی اس کے ادوار کے لوگوں کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتا ہے۔ کیا دورِ اکبر کے بارے میں مزید معلومات اس میں دفن ہیں؟
الونی کی مسجد کے سامنے چند قدم کے فاصلے پر تین چار سیڑھیاں اتر کر آپ حمام کے مرکزی ہال میں داخل ہوتے ہیں۔ سامنے مرکزی تالاب ہے جس کے تین اطراف احاطے بنے ہیں جو ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
حمام کی دیواروں کے درمیان بھاپ اور دھواں باہر نکالنے کے لیے چیمبر بنے ہیں۔ مرکزی ہال میں دو جانب بند طاق ہیں جبکہ فرش پر پانی کے نکاس کی نالیاں موجود ہیں۔ فرش کھودنے پر پانی کی قوس دار نالیوں کا ایک جال بھی نظر آتا ہے۔
نجم الثاقب کے مطابق یہ نالیاں پانی حمام میں لانے یا پھر پانی نکالنے کے کام آتیں ہوں گی۔ تاہم حمام میں گرم اور ٹھنڈے پانی کے حوض بھی موجود تھے۔ ’یہ مغلوں کے طرزِ تعمیر کی عکاسی کرتا ہے۔ اس میں جیومیٹری یعنی ہندسوں کے علم کا بہت عمل دخل ہے۔
نجم الثاقب کے مطابق حمام کا آخری حصہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ ’اکبر کے دور کی یادگار ہے۔ اس حصے میں ایک سوراخ ہے جو ایک سرنگ میں کھلتا ہے۔ سرنگ کی عمارت کی اینٹیں اور حمام کی دیوار کا پلاسٹر یہ بتاتا ہے کہ حمام پہلے تعمیر کیا گیا۔
دونوں دیواروں کے درمیان بمشکل ایک فٹ کی بھی جگہ نہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہاں کھڑے ہو کر سرنگ والی عمارت پر پلاسٹر نہیں کیا جا سکا۔ اس کا مطلب ہے وہ بعد میں بنی۔
حمام حادثاتی طور پر دریافت ہوا۔ جس جگہ اس کا ڈھانچہ پہلی بار دیکھا گیا وہاں مٹی اور کباڑ کا ڈھیر تھا۔ ساتھ ہی چند فِٹ کے فاصلے پر محکمہ آثارِ قدیمہ نے دو گیراج بنا رکھے تھے۔ وہ اب بھی موجود ہیں۔
دیوانِ عام کی طرف سے قلعے کے عقب کی طرف جائیں تو کئی میٹر بلند ایک دیوار ہے۔ اس کا ایک حصہ گزشتہ برس برسات میں گر گیا تھا۔نجم الثاقب نے بی بی سی کو بتایا کہ اس دیوار کے گرنے سے جو زمین کھسکی اس نے چند خدوخال واضح کیے۔ ان میں حمام کا ڈھانچہ بھی شامل تھا۔
نجم الثاقب کا کہنا تھا تاحال یہ بھی معلوم نہیں کہ اس حمام کا داخلی راستہ کہاں سے تھا اور اس میں پانی کہاں سے آتا اور کہاں سے نکلتا تھا۔ ان تمام سوالوں کی کھوج تاہم انھیں دورِ اکبر ہی کی دیگر کئی دریافتوں کی طرف لے کر جا سکتی ہے۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں http://bit.ly/2GiD7W0
0 comments: