
مردم شماری کے ادارے کے مطابق اگر ہم کم از کم 1000 باشندوں پر مشتمل امریکی شہروں پر غور کریں تو فہرست میں ایسکوباریس کا نمبر 62 ہے اور اس شہر کی چار فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔
ایسکوباریس ریو گرانڈے دریا کے کنارے واقع ہے اور یہ دریا امریکہ اور میکسیکو کے درمیان ایک قدرتی بارڈر کی حیثیت رکھتا ہے۔
ڈیبرا ہرنینڈیز بھی یہیں پیدا ہوئیں اور پرورش پائی۔ وہ کہتی ہیں ’اکثر اوقات کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، خدا کا شکر ہے کہ میرے رشتہ دار مجھے کھانے کے لیے بلا لیتے ہیں، لیکن میں شرمندگی محسوس کرتی ہوں۔
وہ انگریزی نہیں بول سکتیں اور بمشکل پڑھ پاتی ہیں۔ میرے سات بچے تھے جن میں سے چھ مر گئے۔ شکر ہے برنیس اب بھی میرے ساتھ ہے، خوش قسمتی سے ایک ڈاکٹر نے مجھے بچا لیا۔
مجھے معلوم نہیں، انھوں نے مجھے کبھی نہیں بتایا کہ ان (بچوں) کی موت کیسے واقع ہوئی، انھوں نے مجھے کوئی دستاویزات نہیں دیے، مجھے لگتا ہے ڈاکٹرز نے انھیں مار دیا۔
وہ لا علم ہیں۔ انھیں نہیں پتا کہ ان کے بچوں کی موت کی اصل وجہ کیا بنی، کوئی جینیاتی بیماری یا شاید غفلت۔ انھیں نہیں پتا اور شاید انھیں کبھی پتا چل بھی نہ پائے کیونکہ انھیں طبی امراض جیسی چیزوں کی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں ہے۔
جب وہ چھوٹی تھیں تو انھیں خصوصی بچوں کے سکول بھیج دیا گیا اور پرائمری کی تعلیم مکمل کرنے کے باوجود بھی انھوں نے کچھ نہیں سیکھا۔ گویا ڈیبرا کو زیادہ سمجھ نہیں ہے کہ دنیا کیسے چلتی ہے۔
اکتوبر سے ڈیبرا بے روزگار ہیں اور اپنے شوہر اور تین سالہ بیٹی برنیس کے ہمراہ رہ رہی ہیں۔ ان کے باورچی خانے کی چھت سے پانی ٹپک رہا ہے، ان کا گھر ایک کباڑ خانے کا منظر پیش کررہا ہے اور وہ سوچتی ہیں کہ حالات کب سازگار ہوں گے۔
ہمیں یہاں سے باہر جانا پڑتا ہے، ورنہ کھانے کو کچھ نہیں ملتا ہائی وے 83 کے اطراف چھوٹی سطح کے کاروبار کے علاوہ ایسکوباریس کے باسیوں کے پاس آمدن کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔
نوکری کی تلاش میں لوگ شہر سے باہر جاتے ہیں۔ہومیرو روزیلیز کہتے ہیں ہم میں سے جن لوگوں کے پاس کاغدات ہیں، انھیں شمال میں نوکری مل جاتی ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ آپ کو ایک، دو یا تین ماہ کے لیے اپنے خاندان کو چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔ لیکن یہ تو کرنا ہی پڑتا ہے، آپ کو یہاں سے نکلنا پڑتا ہے، ورنہ آپ کھا نہیں سکتے۔
چار بچوں کے باپ ہومیرو ایسکوباریس سے نو گھنٹے دور ویسٹ ٹیکساس کے شہر پیکاس میں تیل کی پائپ لائن کی تعمیر کا کام کرتے ہیں۔
میرا بڑا بیٹا بھی میرے ساتھ کام پر لگ گیا ہے کیونکہ یہاں پر کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
جو لوگ پائپ لائنز پر یا ساتھ والے شہروں میں کام نہیں کرتے وہ فوڈ سٹیمپ یعنی خوراک خریدنے کی سماجی امداد پر گزارا کرتے ہیں۔
کچھ لوگ چند ماہ کام کر کے بے روزگار ہونے پر ملنے والے بیمے پر گزارا کرتے ہیں۔
بہرحال یہ سب لوگ ایسی جگہ میں گزارا کر رہے ہیں جہاں کوئی پبلک ٹرانسپورٹ، ہسپتال یا ایمرجنسی سروس موجود نہیں ہے۔ نیویارک کی وال سٹریٹ سے ہزاروں کلومیٹر دور یہ سب لوگ بھی اسی پرچم کے سائے تلے رہ رہے ہیں۔
امریکہ میں غربت کی شرح 12.3 فیصد ہے، جو تقریباً 4 کروڑ لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔
واشنگٹن کے پیو ریسرچ سینٹر کے محقق راکیش کوچھار نے بی بی سی ورلڈ کو بتایا ’سب سے زیادہ غربت ملک کے جنوب میں ہے۔
کوچھار کہتے ہیں کہ سب سے غریب ریاستیں مسیسیپی، لویزیانا اور نیو میکسیکو ہیں جبکہ نسلی طور پر ’ہسپانوی اور سیاہ فام آبادیوں میں تاریخی طور پر غربت کی شرح زیادہ رہی ہے۔
13 سال پہلے ایسکوباریس کا کوئی وجود نہیں تھا اور 2005 میں پہلی بار اسے شہر کا درجہ دیا گیا۔ اس سے پہلے ایسکوباریس کا شمار کسی انتظامی دائرہ کار میں بھی نہیں ہوتا تھا۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شہر ’نو مینز لینڈ‘ یعنی ’علاقہ غیر‘ تصور کیا جاتا تھا۔
لیکن جب یہاں کے لوگوں نے سنا کہ برابر والا شہر روم، ایسکوباریس کا ایک حصہ اپنے ساتھ ضم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو حالات اچانک بدل گئے اور ایسکوباریس کے باشندوں کو اپنے پڑوسیوں کے اس منصوبے میں کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ تب انھوں نے معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2BRz8fz
0 comments: