کچھ مچھلیوں یاشیل فشری میں زہریلے مادے پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے جو کہ پکانے سے بھی ختم نہیں ہوتی۔
مثلاً ”فیوگویا پفر “زہریلی مچھلی ہوتی ہے جو جاپان میں پائی جاتی ہے ۔اس کے علاوہ Paralytic شیل فشری کے لحاظ سے جراثیمی مچھلی ہوتی ہے۔
یہ بھی جاپان اور جنوبی امریکہ میں پائی جاتی ہے۔
بعض لوگ مچھلی سے جبکہ بعض انڈے کھانے سے الرجک ہوتے ہیں ‘ان کو ہم حساس طبیعت افراد کہتے ہیں لیکن کھانے سے بیمار ہونے کا سبب حساس ہونا نہیں بلکہ جراثیم کا غذا کے ہمراہ جسم میں داخل ہونا ہے ‘کیونکہ جراثیم کھانے کے ساتھ مل کر جب پیٹ میں داخل ہوتے ہیں تو وہ غذا سے مل کر زہریلی رطوبت خارج کرتے ہیں جس کی وجہ سے نظام ہاضمہ متاثر ہوتا ہے اور پیٹ میں تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔
کھانے میں شامل ہونے والے یہ جراثیم مختلف اقسام کے ہوتے ہیں اور جسم کے اندر مختلف بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔مثلاً سالمونیلا‘شجیلا‘اسٹافائلو کوکس اورکلو سٹریڈم یہ سب وہ مختلف جراثیم ہیں جو کہ گلی سڑی ‘
باسی مچھلی یا کچھ دوسری خراب اشیاء کے ساتھ جسم میں داخل ہوجاتے ہیں اور پیٹ میں تکلیف ‘آنت میں مروڑ ‘بد ہضمی اور پیچش جیسی بیماریاں پیدا کرتے ہیں ۔
مچھلی زیادہ کھانے سے بھی بدہضمی ہوسکتی ہے ۔
عموماً یہ بات سنی جاتی ہے کہ مچھلی کھانے کے فوراً بعد دودھ نہیں پینا چاہئے اور زیادہ مچھلی کھانے یا اس کے بعد زیادہ دودھ پینے سے پیٹ خراب ہو جاتا ہے (البتہ کچھ لوگوں میں زیادہ کھانے کی صلاحیت ہوتی ہے اور ان کا پیٹ بھی کم ہی خراب ہوتاہے) تو اصل بات یہ ہے کہ دونوں اشیاء (دودھ یا مچھلی ) میں سے کوئی بھی چیز اگر باسی ہے تو وہ پیٹ میں ضرور تکلیف کا سبب بنے گی ‘اس میں کوئی حقیقت نہیں کہ مچھلی کے بعد دودھ پینے سے کوئی تکلیف لاحق ہوجاتی ہے کیونکہ اصل میں تکلیف زیادہ مقدار کھالینے ‘کسی چیز کے باسی ہونے یا پھر اس سے الرجک ہونے سے پیدا ہوتی ہے ‘نہ کہ مچھلی کے اوپر دودھ پی لینے سے ۔
مچھلی خریدنے اور صاف کرنے کے بعد کھلی جگہ میں رکھنے کے بجائے اسے ہمیشہ فریج میں رکھنا چاہئے‘
اس سے مچھلی تازہ رہتی ہے ۔
بعض لوگ مچھلی خریدنے کے بعد اسے کھلا رکھ چھوڑتے ہیں جس سے اس میں چراثیم نشوونما پانا شروع کردیتے ہیں اور مچھلی کا رنگ بھی تبدیل ہو جاتا ہے پھر مچھلی کے پکڑنے کے وقت کا اندازہ لگانا بھی بہت مشکل ہے ۔
اس کے علاوہ اس تالاب یا سمندر کے کنارے (جہاں سے مچھلی پکڑی جاتی ہے ) پر پانی کی آلودگی کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوتا ہے کیونکہ اگر مچھلی ایسی جگہ سے پکڑی جائے جو آلودہ ہوتو ایسی مچھلی میں بہت سے جراثیم موجود ہوتے ہیں اور اس کو کھانے سے انسان بیمار ہونے کے علاوہ زہر خوانی کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔
پھر ماہی گیر جب سمندر میں مچھلی پکڑنے جاتے ہیں تو وہ واپس بند رگاہ چند ہفتوں بعد ہی آتے ہیں اور دوران سفر جو مچھلی پکڑتے ہیں اسے کشتی میں جمع کرتے رہتے ہیں لہٰذا ایسی کشتی یا جہاز میں بھی صفائی کا معیار اعلیٰ ہونا چاہئے یا کم از کم کولڈ اسٹوریج کا تسلی بخش انتظام ہی ہو۔
اس کے علاوہ وہ جگہ جہاں مچھلی اتاری جاتی ہے اس کی صفائی بھی بہت ضروری ہے ۔
کیونکہ اگر یہ تمام چیزیں صاف نہیں ہوں گی تو مچھلی میں مختلف جراثیم داخل ہو سکتے ہیں جو کہ مچھلی کی کو الٹی اور غذائیت کو متاثر کرتے ہیں ۔اسی لئے مچھلی پکڑنے کے سامان ‘کشتی اور کولڈا سٹوریج کا غلاظت سے پاک ہونا ضروری ہے۔
علاوہ ازیں ماہی گیروں کو اپنے ہاتھوں کی صفائی کا بھی خاص خیال رکھنا چاہئے۔
اگر مچھلی کافی عرصے کی پکڑی ہوئی ہوتو ایسی مچھلی کو کھانے سے زہر خوانی ہو سکتی ہے ۔
کوشش یہ کرنی چاہئے کہ زیادہ دیر کی رکھی ہوئی مچھلی یا بغیر فریج کی مچھلی کو پکانے میں احتیاط کریں ۔مچھلی کے اندرونی اعضا ء مثلاً پیٹ ‘معدہ ‘تلی ‘گردہ‘جگر اور آنتیں وغیرہ بہ طور خوراک استعمال نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ ان میں جراثیم ہوتے ہیں اور ان کے کھانے سے آدمی پیٹ کے درد ‘الٹی ‘دست ‘مروڑ اور گیس کی بیماری میں گرفتار ہوسکتا ہے ۔
اس ضمن میں شمال مغربی یورپ کے ممالک مثلاً فن لینڈ ‘روس‘سوئیڈن ‘جاپان اور جرمنی میں ہاف یا یکسیو (Half or Yaksav) جیسی خطر ناک بیماری عام ہے ۔یہ بیماری ان ممالک کے ایسے علاقوں میں ہوتی ہے جہاں کی آبادی سمندر کے کنارے یا جزیروں پر رہتی ہے اور اس بیماری کے پھیلنے کے بنیادی اسباب پانی کی آلودگی اور غلاظت ہیں ۔
اس میں بازو ‘ٹانگ اور کمر کی رگوں میں سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے اور جس کا دورانیہ عموماً 24 گھنٹے ہوتا ہے ۔
کبھی کبھار الٹیاں بھی ہوتی ہیں ۔پیشاب کا رنگ کالا یا بھورا ہوجاتا ہے اور یہ بیماری پرچ (Perch) ‘بریم (Bream) ‘روج (Roagh)‘ٹربوٹ (Turbot)‘اور لیک ٹراؤٹ (Lake Trout)نامی مچھلیوں سے ہوتی ہے ۔
یہ مچھلیاں چونکہ آلودہ اور غلاظت سے پُر پانی سے پکڑی جاتی ہیں اور ایسے پانی میں خورد بینی جاندار بھی شامل ہوتے ہیں لہٰذا وہ خوراک کے ہمراہ مچھلی کے جسم میں داخل ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ مچھلی کے گوشت تک پر اثر انداز ہو جاتے ہیں ۔
دراصل آلودہ پانی میں موجود نباتاتی پودے بلو گرین ‘الجی وغیرہ پانی میں ایک زہریلا مادہ خارج کرتے رہتے ہیں جو کہ غذا کے ساتھ مچھلی کے جسم میں داخل ہو کر گوشت کو آلودہ کر دیتا ہے اور اس کھانے سے انسان بیمار یا ز ہر خوانی کا شکار ہو جاتا ہے ۔
مچھلی کے تالاب میں آلودہ پانی نہیں رہنا چاہئے کیونکہ ایک تو اس سے پانی میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے اور مچھلی کی نشوونما پر خراب اثر پڑتا ہے ۔
دوم آلودگی یا غلاظت کی وجہ سے مچھلی میں مختلف جراثیمی بیماریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں اور ایسی مچھلی کو کھانے سے انسان کا معدہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ انسانی معدے کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتی ہیں
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں http://bit.ly/2UDw5P5
0 comments: