گاجر کو غریبوں کا سیب کہا جاتا ہے کیونکہ غذائی اعتبار سے یہ مہنگے ترین پھلوں کے بھی ہم پلہ ہے اور آئے دن گاجر اور اس کے رس کے طبی فوائد سامنے آتے رہتے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گاجر کارس دیگر پھلوں کے رس کے ساتھ مل کر ان کا ذائقہ اور افادیت بڑھا دیتا ہے ۔
گاجر کے جوس کے فوائد سے پہلے یہ جان لیجئے کہ اس میں کونسے اہم غذائی اجزا پائے جاتے ہیں ۔
ایک کپ گاجر کے رس میں 94 کلوکیلوریز غذائیت ہوتی ہے ،جس میں سے 2.24 گرام پروٹین ،0.35 گرام چکنائی، 21.90 گرام کاربوہائیڈریٹس ،1.90 گرام فائبر،689 ملی گرام پوٹا شیم ،20 ملی گرام وٹامن سی ،0.217 ملی گرام تھا یا مین، 0.512 ملی گرام وٹامن بی، 2.2566 مائیکروگرام وٹامن اے ،
36.6 مائیکروگرام وٹامن کے علاوہ دیگر اجزاپائے جاتے ہیں ۔
گاجر کا رس غذائیت سے بھر پور تو ہوتا ہے اسکے علاوہ یہ کئی خوفناک امراض کو روکنے میں مدد گار ثابت ہوتاہے۔
معدے کا کینسر
گاجر اینٹی آکسیڈ نٹس سے بھرپور ہوتا ہے جن کی سرطان روکنے کی صلاحیت سے سب واقف ہیں ،
ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ گاجر کا رس معدے کے کینسر کو دور رکھنے میں مدد گار ہوتا ہے اگر مسلسل گاجریں کھائی جائیں تو معدے کے سرطان کے امکانات 26فیصد تک کم ہوجاتے ہیں ۔
لیوکیمیا کاتدارک:
ایک مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ گاجر کارس لیو کیما کے خلیات (سیلز)کو ختم کرنے میں موٴثر کردار ادا کرتا ہے ۔بسا اوقات گاجر کا رس لیو کیما کے خلیات کو از خود تباہ کردیتا ہے اور ان کے پھیلاؤ کو روکتا ہے البتہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے ۔
چھاتی کے سرطان سے بچائے:
گاجروں میں کیروٹینو ئیڈز کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جو چھاتی کے کینسر کو دوبارہ حملہ کرنے سے روکتی ہے ۔
اس کے علاوہ سائنسدان پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ خون میں کیروٹینوئیڈز کی مقدار جتنی زیادہ ہوگی ،
بریسٹ کیینسر کے لوٹنے کا خطرہ اتنا ہی کم ہوجاتا ہے ۔
اس کیلئے ایک چھوٹا سا مطالعہ کیا گیا کہ خواتین کو تین ہفتوں تک روزانہ 8 اونس گاجر کا رس پلایا گیا ۔اس کے بعد جب ان خواتین کے خون کا مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ان کے خون میں کیروٹینوئیڈز کی مقدار زیادہ تھی جب کہ آکسیڈیٹیو اسٹریس کی علامات کم تھیں جو کینسر کی وجہ بن سکتی ہیں ۔
سانس اور پھیپھڑوں کے امراض میں مفید:
گاجر کا رس وٹامن سی سے بھر پور ہوتا ہے اور یہ سانس کے ایک مرض کرونک اوبسٹر کٹیو پلمو نری ڈیزیز (سی اوپی ڈی) کی شدت کم کرتا ہے ۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں http://bit.ly/2SinXlX
0 comments: