جاں بحق ہونے والے تمام 4 بچے مٹھی کے سول ہسپتال میں زیرِ علاج تھے جنہیں تھر کے دور دراز علاقوں سے علاج کے لیے منتقل کیا گیا تھا۔
سرکاری ذرائع کے مطابق مزید 4 بچوں کی ہلاکت کے بعد رواں برس تھر میں غذائی قلت سے جاں بحق ہونے والوں بچوں کی تعداد 6 سو 48 تک جا پہنچی ہے۔
متاثرہ بچوں کے والدین نے مقامی صحافیوں کو ضلع کے واحد ہسپتال میں سہولیات کی عدم فراہمی سے آگاہ کیا۔
انہوں نے ہسپتال میں موجود طبی عملے کے رویے سے متعلق بھی شکایت کی۔
متاثرہ والدین کی جانب سے مریضوں کو علاج کے لیے حیدر آباد اور کراچی کے ٹیچنگ ہسپتال منتقل کرنے کے لیے مفت ایمبولینس سروس دوبارہ چلانے کا مطالبہ کیا گیا، کیونکہ وہ اپنے عزیز و اقارب کو بہتر علاج کے لیے ہسپتال لے جانے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔
دیگر اضلاع سے موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق شعبہ صحت کو فنڈز کی عدم فراہمی کی وجہ سے 2 سو کے قریب طبی مراکز کو ادویات کی کمی کا سامنا ہے۔
خیال رہے کہ تھر میں صحت کی صورتحال ابتر ہونے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کو خوراک اور پانی کی بھی شدید کمی کا سامنا ہے۔
ان وجوہات کی وجہ سے ہی تھر کے دور دراز کے علاقوں میں اکثر بچے جان لیوا بیماریوں کا شکار ہوکر جاں بحق ہو جاتے ہیں۔
ان میں سے اکثر والدین بچوں کو قریبی ہسپتال یا پھر صحت کے مراکز میں علاج معالجے کے لیے لے جاتے ہیں، لیکن پھر بھی اکثر بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
تھر میں بچوں کی صحت اور غذا کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیم 'ہینڈز' کے سربراہ ڈاکٹر شیخ تنویر احمد سمیت ماہرین صحت اور بچوں کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ تھر میں کم عمری میں شادی، بچوں کی غذائی قلت، غربت اور دیگر مسائل نوزائیدہ بچوں کی ہلاکت کے اسباب ہیں۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں http://bit.ly/2GFLe01
0 comments: